چند سلیکٹڈ ججز عوام کی الیکٹڈ پارلیمینٹ پر حاوی کیوں نہیں ہو سکتے؟

معروف لکھاری بلال غوری نے کہا ہے کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام حکومت میں کسی بھی صورت چند سلیکٹڈ ججز کو کروڑوں لوگوں کی الیکٹڈ پارلیمنٹ کا چوکیدار نہیں بنایا جا سکتا، لیکن ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت آئین کی نام نہاد تشریح کرتے ہوئے عدلیہ کو پارلیمنٹ کا دربان بنا دیا گیا تھا۔ تاہم 26 ویں آئینی ترمیم نے عدالتی آمریت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کروڑوں لوگوں کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کی سپریمیسی بحال کر دی یے۔

تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں

اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ جب بھی پاکستان میں کوئی آئینی ترمیم ہوتی ہے تو عدلیہ اور فوج کے ذریعے جمہوریت کو کمزور کرنے والے آئین کے ’’بنیادی ڈھانچے‘‘ کی جگالی کرتے ہوئے یہ نرالی منطق پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ آئین سازی بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، لہٰذا عدالتیں مداخلت کر کے اسے کالعدم قرار دیں۔

کیس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اختراع سامنے آئی

پاکستان میں عاصمہ جیلانی اور حکومت پنجاب کے مابین کیس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اختراع سامنے آئی اور کہا گیا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کے دستور کی اساس ہے۔ بعد ازاں آٹھویں ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں سمیت کئی آئینی مقدمات میں یہ استدلال اختیار کیا گیا۔ ماضی قریب میں جب راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار کی طرف سے 18ویں اور 21ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو 17 میں سے 13 جج صاحبان نے قرار دیا کہ اگر کسی آئینی ترمیم میں دستور کے بنیادی خدوخال یا پھر عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی کی گئی تو عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

عمرعطا بندیال نے نیب قوانین میں ترمیم کوکالعدم قراردیاتھا

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک بنچ نے نیب قوانین میں ترمیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ نے اس فیصلے کو اٹھا کر تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان پارلیمنٹ کے چوکیدار نہیں ہیں۔ لیکن بعض لوگ عدلیہ کو پارلیمنٹ کا دربان بنانے پر مصر ہیں اور ان کے پاس دلیل یہی ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔

آئینی ترمیم کوکسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا،بلال غوری

بلال غوری سوال کرتے ہیں کہ آئین کی کس شق میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ بنیادی حقوق کا باب اور شخصی آزادیوں سے متعلق حصے کو بنیادی ڈھانچے کی حیثیت حاصل ہے؟ کیا پاکستان کے دستور میں کہیں یہ قدغن لگائی گئی ہے کہ پارلیمنٹ ان معاملات پر آئین سازی نہیں کر سکتی؟ مجھے تعجب ہوتا ہے جب نامور وکیل اور ماہرین آئین و قانون دستور کے آرٹیکل 239 کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 239کی ذیلی شق پانچ میں بہت واضح اور غیر مبہم انداز میں لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کو کسی بھی بنیاد پر کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

آئین سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیارات لامحدود ہیں،تجزیہ کار

بلال غوری بتاتے ہیں کہ اسی آرٹیکل کی ذیلی شق چھ میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیارات لامحدود ہیں، اور اس پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک اور قدغن نہیں۔ آئین سازوں نے اپنی غرض و غایت بہت واضح ،سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ اسکے بعد کسی آئینی بنچ، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کی طرف سے تشریح و تعبیر بیان کرنے کی حاجت بھی باقی نہیں رہتی۔

ججزسیاست کرنے کے مرض لادوا میں مبتلا نہ ہوں

اگر جج صاحبان منصف کے منصب پر ہی براجمان رہیں، وہ خود کو مسیحا اور نجات دہندہ نہ سمجھنے لگیں، اور جرنیلوں کی طرح سیاست کرنے کے مرض لادوا میں مبتلا نہ ہوں تو آئینی ترمیم کے خلاف دائر ہونے والی درخواستیں رجسٹرار آفس سے ہی بھاری جرمانہ عائد کرکے خارج کردی جائیں۔ مگر یہ عالی مرتبت جج صاحبان متفق علیہ معاملات پر ایسی گوہر افشانیاں کرتے ہیں کہ ہم حیران رہ جاتے ہیں۔

عوام سے مینڈیٹ لیکر آئین سازی کی جا سکتی ہے

بلال غوری کہتے ہیں کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں عوام سے مینڈیٹ لیکر آئین سازی کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی سیاسی جماعت پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانا چاہتی ہے ،کسی کو شریعت نافذ کرنے کا شوق ہے، کوئی لبرل اِزم، سیکولر اِزم یا کسی بھی اور اِزم کا دعویدار ہے تو وہ انتخابی مہم کے دوران اس ایجنڈے کو اپنے منشور کا حصہ بنائے، اگر اسے دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے تو پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لا کر اپنی مرضی کا نظام نافذ کر کےتو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔

ترمیم کو عدالت کے روبرو چیلنج نہیں کیا جا سکتا؟

بلال غوری کہتے ہیں کہ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا کسی آئینی ترمیم کو کسی بنیاد پر کسی عدالت کے روبرو چیلنج نہیں کیا جا سکتا؟ اسکا جواب یے ہرگز نہیں۔ میری دانست میں صرف ایک صورت میں ایسا ممکن ہے کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکے اور وہ ہے طے شدہ طریقہ کار میں گڑ بڑ۔ اگر ایک سیاسی جماعت نے یہ کہہ کر ووٹ لئے کہ ہم قومی احتساب بیورو کو مضبوط بنائیں گے۔

عدم اعتماد کی قرار داد آجائے تو اس پر ووٹنگ ہو گی

 لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے مگر وہ اقتدار میں آ کر اس کے برخلاف قانون سازی کرتی ہے اور احتساب کرنے والے اداروں کو یکسر ختم کر دیا جاتا ہے تو اس قانون سازی کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ جب عدم اعتماد کی قرار داد آجائے تو اس پر ووٹنگ ہو گی لیکن ووٹنگ کروائے بغیر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا جاتا ہے جیسا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ہوا۔ ایسے میں عدالت مداخلت کر سکتی ہے اور اس نے ایسا کیا بھی۔

دھونس،دھاندلی پر عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے

بلال غوری کہتے ہیں کہ ظلم تو یہ ہے کہ ایوان میں 39 ارکان والی پارٹی جیت جاتی ہے اور 66 ارکان والی جماعت کو ہرا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں بھی انصاف کی دہائی دی جا سکتی ہے۔ اگر کسی آئینی ترمیم کے دوران یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مطلوبہ اکثریت میسر نہیں تھی یا پھر ارکان پارلیمنٹ سے دھونس، دھاندلی اور جبر کی بنیاد پر زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے ہیں تو ایسی صورت میں بھی عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے مگر یہ بنیادی آئینی ڈھانچے والا ڈھکوسلہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ لہٰذا کسی نے 26ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہے تو کم ازکم استدلال اور منطق ہی بدل لی جائے۔

Back to top button