عمران خان کیوں ناکام ہوئے اورPTI کا خاتمہ کیوں ہونے جا رہا ہے؟
تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی جانب سے 20 سالہ سیاست کے بعد پارٹی کے معاملات اپنی اہلیہ اور ہمشیرہ کے حوالے کیے جانے کا فیصلہ دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ وہ بطور سیاستدان ناکام ہو چکے ہیں اور ان کی جماعت خاتمے کی جانب گامزن ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں بند عمران خان بطور وزیر اعظم مکمل طور پر ناکام ہو جانے کے بعد تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے تھے، لیکن اُنکے خلاف مارچ 2022ء میں پیش کی جانے والی ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک نے اُن کی سیاست میں ایک نئی جان ڈال دی۔ تاہم عمران کی مقبولیت کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اب تک ایک کامیاب احتجاجی تحریک چلانے میں ناکام رہی اور خان کو ’’فائنل کال‘‘ دینا پڑی جو نہ صرف اُن کیلئے ایک بڑا ’’رسک‘‘ ہے بلکہ اُنکی جماعت کیلئے بھی بڑا چیلنج ہے۔
مظہر عباس سوال کرتے ہیں کہ بحیثیت اپوزیشن لیڈر کیا وجہ ہے کہ اس تحریک میں پی ٹی آئی ’’تنہا‘‘ کھڑی نظر آتی ہے۔ خود خان ’’تنہائی کا شکار‘‘ نظر آتے ہیں جسکی بڑی وجہ اُن کی حکمتِ عملی ہے، ایک طرف خود انہوں نے چھ جماعتی اتحاد بنایا مگر اُسکی کسی جماعت کو ’’فائنل کال‘‘ دینے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا۔ آخر محمود خان اچکزئی کہاں ہیں۔ اختر مینگل استعفیٰ دے کر لاپتہ ہو گئے اور اس سب پر پی ٹی آئی میں خاموشی۔ خان کی تنہائی کی ایک اور وجہ اُن کے بہت سے با اعتماد ساتھیوں کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب وہ اُن پر بھی اعتماد نہیں کر رہے جنکو انہوں نے خود نامزد کیا اور بڑے عہدے دیئے، اسی لیے آج خود اُنکی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن عملی طور پر سیاست میں آگئی ہیں اور پارٹی میں کوئی عہدہ نہ ہوتے ہوئے بھی ’’فائنل کال‘‘ کا اعلان علیمہ خان نے کیا۔ یعنی ان کی جماعت فارغ ہو چکی ہے اور پارٹی قیادت اب ان کے خاندان کے افراد کے پاس چلی گئی ہے۔
دوسری طرف حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اُس کی ’’ساکھ‘‘ ہے۔ یہ بہرحال 2014ء نہیں ہے حالانکہ اُس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ وزیراعظم نواز شریف تھے مگر عمران 126 دن ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے رہے اور بات ایک عدالتی کمیشن پر ختم ہوئی کمیشن نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اُس وقت دھرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی کیا ا س لیے کہ کل فوج کی واضح حمایت پی ٹی آئی کو حاصل تھی اورآج معاملہ اُسکے برعکس ہے جس کی ایک بڑی وجہ بادی النظر میں 9مئی کے واقعات ہیں۔ اس بات کو 17 ماہ گزر چکے ہیں اور مقدمات چلنے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ آج بھی اس پر سیاست ہی ہو رہی ہے البتہ خود فوج کے اندر بہت سے افسران کے خلاف کارروائی ضرور ہوئی اور سُنا ہے سابق ISI چیف جنرل فیض حمید کیخلاف بھی تادیبی کارروائی ہونے والی ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایسے میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے احتجاج کا رخ موجودہ حکومت سے زیادہ فوج کی طرف نظر آتا ہے جو کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی احتجاجی تحریک میں چند باتیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ تنظیم، اتحاد، نظریہ، جذبہ، حکمتِ عملی، اپنے مخالف کی طاقت کا اندازہ لگانا، حامیوں اور کارکنوں کو بڑی تعداد میں باہر نکالنا، گرفتاریوں کی صورت میں قانونی ٹیم کا کردار، مذاکرات کی صورت میں لچک دکھانا اور مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں آئندہ کی نظرثانی حکمتِ عملی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ احتجاج کی کال ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب ریاست اور حکومت کی واضح پالیسی ’’احتجاج‘‘ کو ہر طرح سے روکنا اور سختی کرنا بشمول گرفتاری اور اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کرنا ہے۔ اب اگر دھرنا سڑکوں یا ہائی وے پر دیا جاتا ہے تو اس سرد اور اسموگ والے موسم میں رکنا آسان نہ ہو گا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ 2014ء کے دھرنے کی طرح وہ سہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ البتہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال معاملات کو خراب کر سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کوئی غیر معمولی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو آنے والے وقت میں اس کی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے۔ ایسے میں عمران کی ’’سیاسی تنہائی‘‘ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس ’’کال‘‘ کا اعلان وہ اتحاد کرتا جو بنا ہی اس مقصد کیلئے تھا۔ اگر اس احتجاج میں جے یو آئی اور جے آئی بھی یا دونوں میں سے ایک بھی شامل ہوتی تو احتجاج کو ’’سولو فلائٹ‘‘ نہ کہا جاتا۔ تاہم عمران کو شاید اپنے ووٹرز اور حامیوں سے یہ توقع رہی ہے اور اب بھی خاصی حد تک ہے کہ 8 فروری کی طرح باہر نکلیں گے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان نے احتجاج کی کال دینے کے باوجود فوج سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔ لیکن اس وقت خان کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دروازہ کھولنے ہی کوئی نہیں آ رہا۔
پچھلی حکومت پوچھنے پر بھی توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی : اسلام آباد ہائی کورٹ
پی ٹی آئی کے کئی مرکزی رہنماؤں کا خیال ہے کہ بہتر ہوتا کہ احتجاج کا اعلان مکمل تیاری کے بعد ہوتا، تاہم جو لوگ ’’مارو یا مرجاؤ‘‘ والی باتیں کرتے رہے ہیں انہیں خدشہ تھا کہ چونکہ پارٹی میں کئی ’’مخبر‘‘ موجود ہیں لہٰذا سارا پلان لیک ہونے کا خدشہ تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران نے اب سیاسی حکمتِ عملی میں اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن علیمہ خان پر سیاسی طور پر زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے جس پر انہیں اِس تنقید کا بھی سامنا ہے کیونکہ وہ سیاست میں موروثیت کے سب سے بڑے مخالف تھے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ پارٹی قیادت اور احتجاج کی منصوبہ بندی علیمہ خان اور بشری بی بی کو سونپنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ ابھی دیکھنا ہے۔ اصل امتحان تب ہوگا جب خان جیل سے باہر آئیں گے۔ لیکن اگر انہیں لمبی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا بشریٰ بی بی یا علیمہ خان بیگم نصرت بھٹو یا بیگم کلثوم نواز جیسا بھرپور سیاسی کردار ادا کر پائیں گی۔