جسٹس عائشہ ملک کو آئینی بینچ سے الگ کردیا گیا

سپریم کورٹ کی آئینی بینچز کمیٹی نےجسٹس عائشہ اےملک کو سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر آئینی بینچ میں سماعت کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کیاہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے13 نومبرکو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ہونے والے آئینی بینچز کمیٹی کےاجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا۔

اعلامیے کےمطابق آئینی بینچزکمیٹی کا تیسرا اجلاس13 نومبر2024 کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں جسٹس امین الدین خان کی زیر صدارت میں منعقد ہوا، جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہراور رجسٹرار نے شرکت کی۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے کئی اہم معاملات پر غور و خوض کیا جن کا مقصد خاص طور پر آئینی بنچ کےلیےکیس مینجمنٹ کی کارکردگی اور شفافیت کو بہتر بنانا ہے،

کمیٹی نے دفتر کو ہدایت دی کہ زیر التوا اپیلوں کو تیزی سے نمٹانے کے لیے وہ ایک ہفتے کے اندر مقدمات کی ترتیب اوردرجہ بندی کا عمل مکمل کرے اور کمیٹی کے ہر رکن کے سامنے سماعت کےلیےروزانہ 5 چیمبر اپیلوں کا تعین کرے۔

اعلامیے کے مطابق کام کے بڑھتے ہوئے بوجھ کودور کرنے کے لیے کمیٹی نے بینچ کو عدالتی معاونت کے لیے ایک قابل سول جج کی درخواست کی سفارش کی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عائشہ اےملک عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف فیصلہ دینے والے7 رکنی بینچ کا حصہ تھیں لہٰذا وہ اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر آئینی بینچ میں خدمات انجام نہیں دے سکتیں۔

اعلامیے کےمطابق کمیٹی نے فیصلہ کیا ہےکہ چونکہ اصل آئینی درخواست کی سماعت 7 رکنی بینچ نے کی تھی اس لیے کمیٹی نےفیصلہ کیا کہ وہ آئینی بینچ کی تکمیل کےلیےجوڈیشل کمیشن آف پاکستان سے رجوع کرے گی تاکہ اس معاملے کی فوری سماعت کو یقینی بنایا جاسکے۔

اعلامیےمیں مزید کہا گیا ہے کہ رجسٹرارسپریم کورٹ کو جسٹس محمد علی مظہر کی مشاورت سے آئینی بینچ کےپریکٹس اور پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے والے قواعد کا مسودہ تیار کرنے کی ذمےداری سونپی گئی تھی، جس کی منظوری کے لیے کمیٹی حتمی مسودے کا جائزہ لےگی۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نےکیس کی شناخت اورٹریکنگ کو بہتربنانےکے اقدامات کے مطابق کمیٹی نے تمام متعلقہ مقدمات کی فائلوں کے لیے’آئینی بینچ‘کے نشان والے ایک مخصوص سبز ٹکٹ کے استعمال کی منظوری دےدی۔

اعلامیے کے مطابق اس تبدیلی کی عکاسی عدالت کے انفارمیشن ٹیکنالوی (آئی ٹی) پر مبنی کیس فلو سسٹم میں انٹیگریٹڈ کلرکوڈڈ ٹیگنگ کےذریعے بھی ہوگی۔

طریقہ کار کی وضاحت کویقینی بنانے کےلئےآرٹیکل191 اےکےتحت تمام مقدمات میں ایسے عنوانات شامل ہوں گے جن پر واضح طور پر انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کےآئینی بینچ سے متعلق قراردیا جائے گا۔

اعلامیےکےمطابق فوری سماعت کے لیےدرخواستیں کمیٹی کے سامنے اس وقت تک رکھی جائیں گی جب تک کہ فوری مقدمات کے طریقہ کار کے قواعد کو حتمی شکل نہیں دی جاتی تاکہ اہم معاملات پرترجیحی توجہ کو یقینی بنایاجاسکے۔

کمیٹی نےاس بات کااعادہ کیا کہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 186 اےکے تحت مقدمات منتقل کرنےکااختیار خصوصی طورپرحاصل ہے اور اس طرح کے معاملات کی باقاعدہ بینچزکے ذریعے سماعت جاری رہےگی۔آرٹیکل 199 کےتحت صرف ان معاملوں کوآئینی بینچ کوبھیجا جائےگا جن میں اہم آئینی سوالات یا قانون کےاہم مسائل شامل ہوں گے۔

اعلامیےکےمطابق کمیٹی نےآپریشنل استعداد کار بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے آرٹیکل191 اے کےتحت آئینی معاملات کو سنبھالنے کے لیے ایک مخصوص برانچ قائم کرنے کا عزم کیا ہے،جس میں معاملات کی ہموار کارروائی کو یقینی بنانے کے لے درکار عملہ موجود ہوگا۔

اعلامیے میں مزید کہا گیاہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سےآئینی بینچ کو پہلےہی منتقل کیے گئے مقدمات منظور شدہ روسٹر کےمطابق طے کیےجائیں گے۔

Back to top button