بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث بااثر ریاستی کردار کیوں بچ گئے؟

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ ریاست پاکستان کا فرض یے کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل ناحق میں ملوث با اثر ریاستی کرداروں اور منصوبہ سازوں کو منظر عام پر لا کر ان کا احتساب کرے اور اس کیس میں مزید تاخیر نہیں برتی جانی چاہیے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ناحق مارے جانے والے ہر شہری کے قاتل کو سزا دینا ایک ذمہ دار ریاست کا فرض ہے۔ جو ریاست اپنی سب سے مقبول لیڈر بے نظیر بھٹو کے ناحق قتل کے براہ راست یا بالواسطہ ذمہ داروں کو ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکی اسے نرم سے نرم الفاظ میں کمزور اور مصلحت پسند ریاست کہا جائے گا، ایسی ریاست نہ مضبوط کہلا سکتی ہے اور نہ قانون و آئین کی پابند سمجھے جاتی ہے۔ آج بھی پاکستان کے طاقتور اداروں کے سابق افسران اور دہشت گرد تنظیموں کے جنگجو اتنے طاقتور ہیں کہ دن دہاڑے مسلم دنیا کی پہلی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں سرِبازار قتل کر کے اب بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں القاعدہ اور طالبان کے وہ بڑے نام جو اس قتل کی سازش میں براہ راست اور بالواسطہ شریک تھے وہ سب ایک ایک کر کےامریکی ڈرون حملوں میں مار دیئے گئے، لیکن اس جرم میں شریک کئی سہولت کاروں کی جاں بخشی کرتے ہوئے انہیں بچا لیا گیا۔ وہ طاقتور ریاستی اہلکار جن کی غفلت، لاپروائی، تکبر، نفرت اور سازش بی بی ہے قتل میں پوری طرح کارفرما تھی، ان پر نہ مقدمے چلے اور نہ ہی انہیں تفتیش کے لیے کسی تھانے یا کچہری میں بلایا گیا، وہ اتنے طاقتور اور گھمنڈی ہیں کہ دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ادارے اقوام متحدہ کی طرف سے قائم کردہ کمیشن میں بھی اعلانیہ طور پر پیش ہونے سے انکار کر گئے۔ جو چند لوگ کمیشن کے سامنے پیش بھی ہوئے انہوں نے اقوام متحدہ کو حقیر اور ناکارہ جانتے ہوئے نہ صرف کمیشن ممبران کی بے عزتی کی بلکہ ان سے بدتمیزی بھی کی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود یہ اعلی سرکاری افسران اب بھی پاکستان میں زندہ موجود ہیں، اور بااثر اور معزز گردانے جاتے ہیں۔ نہ کوئی انہیں ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ ہی بی بی شہید کے قتل کی سازش کے حوالے سے ان سےکوئی سوال و جواب کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منزو نے قتل کی تحقیق و تفتیش پر مبنی اپنی تاثراتی کتاب کا نام GETTING AWAY WITH MURDER رکھا یے جس کا اردو میں مطلب ہے قتل کرکے بچ نکلنے والے لوگ۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ 1986 میں ان کی لاہور آمد سے لیکر 2007 میں ان کی شہادت تک ان سے ہونے والی ملاقاتیں، انٹرویوز، راز ِدروں کہانیاں، ان سے لڑائیاں اور ان کی بے پایاں شفقت سب انکے ذہن میں محفوظ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے محترمہ کے قتل ناحق بارے تحقیق و تفتیش پر مبنی ایک کتاب ’’قاتل کون؟‘‘ تحریر کی جس میں انکے ظاہری اور چھپے قاتلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے کردار کا سائنسی تجزیہ بھی کیا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میں آج بی بی شہید کے قتل میں ملوث کچھ چھپے کرداروں کو سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ ریاست ان با اثر ملزموں اور مجرموں کا نہ صرف ٹرائل کرے بلکہ خود مدعی بن کر گواہیاں پیش کرے تاکہ آئندہ سے خون ناحق بہانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور ریاست خود مدعی نہیں بنتی تو پھر نہ خون ناحق کا سلسلہ رکے گا اور نہ ہی ریاستی دہشت گردی ختم ہوگی۔ نہ ہی ریاست اس الزام سے بری ہو پائے گی کہ پاکستان دہشت گردی کی ریاستی سرپرستی کرتا ہے۔
27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب قومی اسمبلی وجود میں آئی تو اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، دونوں نے پارلیمان سے متفقہ قرارداد کے ذریعے محترمہ کی شہادت کی تفتیش اقوام متحدہ سے کروانے کا مطالبہ کیا ۔اس سے پہلے لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کی تفتیش بھی اقوام متحدہ کر چکا تھا۔ اقوا م متحدہ کمیشن نے پاکستان اور بیرون ملک اس قتل کی تحقیقات کیں، اور بین الاقوامی ماہرین کی مدد لی، دنیا کے سب سے مشہور تفتیشی ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ نے فرانزک شواہد کی بنا پر اس قتل کی سائنسی تحقیق کی۔ اقوام متحدہ نے بڑی محنت سے تیار شدہ تحقیقاتی رپورٹ کا اعلان کر دیا۔
سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ تب کے صدر آصف علی زرداری نے ابتدائی طور پر اس رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کمیشن رپورٹ میں جہاں طالبان اور القاعدہ کے ناموں کی نشاندہی کی گئی تھی وہاں ایک میجر جنرل سمیت کچھ فوجی اہلکاروں اور ایک ڈی آئی جی سمیت پولیس اہل کاروں کے خلاف مقدمات چلانے کی سفارش کی گئی تھی۔ جب فوج اور پولیس کے حاضر سروس اہل کاروں کے نام سامنے آئے تو تب کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ماتھا ٹھنکا۔ یہ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا دور تھا، چنانچہ زرداری حکومت کے خلاف فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے میمو گیٹ سکینڈل مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
چنانچہ ایک روز جنرل اشفاق کیانی سرشام باوردی جرنیلوں کے ساتھ ایوان صدر پہنچ گے۔ انہوں نے صدر زرداری پر دبائو ڈالا کہ اگر اقوام متحدہ کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر حاضر سروس فوجی افسروں پر مقدمے چلے تو فوج بدنام ہوگی۔ یوں پاکستان ناکام ریاست ثابت ہو جائےگا چنانچہ اقوام متحدہ کی رپورٹ سے دوری اختیار کی جائے۔ اس صورت حال میں صدر زرداری نے ایک بار پھر دل ہی دل میں ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا ہو گا جس کے بعد وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کمیشن کو خط لکھا کہ اس کی رپورٹ پر ریاست پاکستان کو شدید تحفظات ہیں اسلئے اس رپورٹ پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ یوں جنرل کیانی سب ملزموں اور مجرموں کے مدعی بن کر بہ ہمراہ لائو لشکر آئے اور سب کیلئے اجتماعی معافی لے کر چلے گئے۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سے بی بی شہید کے قتل کی تحقیق و تفتیش سرد خانے میں ہے۔ آج کون ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل ندیم اعجاز سے پوچھے گا کہ وہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے سامنے کیوں پیش نہ ہوئے؟ کون بتائے گا کہ بی بی کی جائے شہادت کو جلدی میں دھو دینے والے ڈی آئی جی سعود عزیز اقوام متحدہ کمیشن کے اراکین سے کیوں الجھے تھے؟ کون بتائے کہ اقوام متحدہ کمیشن کے اراکین پر فوجی پہرہ لگانے اور ان کی جاسوسی کروانے کا ذمہ دار کون تھا؟ کیسے پتہ چلے کہ مشرف دور میں بی بی کے قتل کی تحقیقات خراب کرنے والے ریاستی کردار کون تھے۔
سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو پر فائر کرنے والا سعید عرف بلال تو موقع واردات پر ہلاک ہو گیا تھا لیکن اسے وہاں لانے والے حسنین اور رفاقت اب بھی جیل میں ہیں، یہ دونوں مشکوک افراد ایک خفیہ ایجنسی اور طالبان دونوں کے ڈبل ایجنٹ تھے۔ نصر اللہ عرف احمد اور قاری نادر عرف اسماعیل ایک پراسرار فوجی مقابلے میں مارے گئے۔بیت اللہ محسود، مصطفیٰ ابویزید اور ایمن الظواہری ڈرون حملوں میں قتل ہو گے، بی بی شہید کے قتل میں براہ راست ملوث لوگ تو مارے گئے لیکن جو لوگ بالواسطہ اس قتل میں ملوث تھے اور اج بھی ریاست پاکستان کے پیچھے چھپے ہیں، ان پر کھلا مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں کسی بھی صورت معافی نہیں ملنی چاہیے۔