پی ٹی آئی سیاسی جماعت کی بجائے ایک خطرناک وائرس کیوں بن گئی؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اب ایک سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ خطرناک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے جسکا تدارک حفاظتی اقدامات اور علاج کے ذریعے ممکن نہیں رہا۔ پی ٹی آئی ایک ناگہانی آفت بن چکی ہے، جسے کنٹرول کرنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو لاک ڈائون نافذ کر کے ویکسین شاٹس لگانے کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا۔ ورنہ کنٹینر نامی اینٹی بائیوٹک بھی ایک دن کام کرنا چھوڑ دے گی۔ انکا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نامی وائرس کو تخلیق کرنے والے سائنسدان اب بھی اسے اپنا اثاثہ سمجھ کر ختم کرنے سے گریز کرتے رہیں گے تو پھر معاملات مکمل طور پر انکے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ 24 نومبر کو اسلام آباد پر حملہ آور ہونے والوں کو روکنے کے لیے راستے بند کرنے کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ تحریک انصاف کی قیادت ہے۔ جو یوتھیے اس صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں ان سے پوچھنا ضروری ہے کہ جب کوئی گروہ ریاست پر حملہ آور ہو کر یہ اعلان کر رہا ہو کہ جیل کے دروازے توڑ کر قیدی نمبر 804 کو رہا کروا لیا جائیگا، تو کیا ایسے میں حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟ کیا اسلام آباد کو شرپسندوں سے بچانے کی کوشش نہیں کی جائے گی؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ اگر محاصرہ طویل ہونے پر شہر میں فاقوں کی نوبت آجائے تو حملہ آوروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے شہر کا دفاع کرنے والوں کو ہی فاقوں کا ذمہ دار قرار دے دیا جائے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ ریاست کو اب سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ تحریک انصاف کے فتنے سے کیسے نمٹا جائے اور آئے روز منہ اٹھا کر پشاور سے اسلام آباد پر دھاوا بولنے والوں کا مکو کیسے ٹھپا جائے۔ بلال غوری کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان یوں محصور ہے جیسے تاتاریوں کا لشکر سب کچھ تہس نہس کرنے آرہا ہو۔ تمام مرکزی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، ریل کا نظام معطل ہے، انٹرنیٹ دستیاب نہیں، جاں بلب مریض تڑپ رہے ہیں، پہلے سے طے شدہ تقریبات کو منسوخ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، بچے پوچھ رہے ہیں کیا کوئی آفت آنیوالی ہے اور میں گھر میں بیٹھا دستور پاکستان کی اس سبز کتاب پر غور کررہا ہوں جس میں طے کیا گیا تھا کہ اس ملک کا نظام کیسے چلایا جائیگا۔

ابتدائی، ثانوی، تقریباً حتمی، حتمی، قطعاً حتمی اور آخری حتمی کال دینے والوں کا اصرار ہے کہ آئین نے انہیں پر امن احتجاج کا حق دیا ہے اور حکومت ریاستی جبر کے ذریعے ان سے یہ حق نہیں چھین سکتی۔ اس حوالے سے بنیادی حقوق کے باب میں 16ویں شق کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امن عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ،ہر شہری کو پرامن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق حاصل ہوگا۔ لیکن ادھوری بات کرنیوالے یہ نہیں بتاتے کہ اس سے پہلے والی شق میں کیا کہا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 15کے مطابق ’’ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفاد عامہ کے پیش نظر قانون کے ذریعے عائد کردہ کسی معقول پابندی کے تابع، پاکستان میں داخل ہونے اور اسکے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور اسکے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اورآباد ہونے کا حق حاصل ہوگا۔‘‘

یعنی شہریوں کو ہر دو طرح کے حقوق فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کے مواقع بھی اور پرامن احتجاج کی سہولت بھی۔ مگر نقل وحرکت کی آزادی کو پہلے بیان کرنے کا مطلب ہے کہ ترجیحاتی اعتبار سے یہ حق مقدم ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ روایت چل نکلی ہے کہ کوئی بھی آئین کے آرٹیکل 16 کی جگالی کرتے ہوئے دھرنا دیکر بیٹھ جاتا ہے یا پھر اسے روکنے کیلئےحکومت رکاوٹیں کھڑی کرکے شہروں کو بندکر دیتی ہے اور آرٹیکل 15 کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بلال غوری سوال کرتے ہیں کہ کیا ان کروڑوں شہریوں کے کوئی حقوق نہیں جو حقیقی آزادی جیسی نو ٹنکیوں اور نئے پاکستان جیسی شعبدہ بازیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہتے ہیں، گھر کا چولہا جلانے کے لئے روزگار کی تلاش میں نکلنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کا گھر سے نکلنا دشوار کر دیا گیا ہے؟

بلال غوری کے مطابق جب یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے تو انقلابی یوتھیے منہ بسور کر کہتے ہیں، راستے تو حکومت نے بند کئے ہیں، ہم نے تو کنٹینر نہیں لگائے، اس صورتحال کی ذمہ دار حکومت ہے۔ قربان جائوں میں اس معصومیت پر۔  اتنے حملے تو شیر شاہ سوری اور محمود غزنوی نے اس خطے میں نہیں کئے ہونگے جتنے  علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد پر کیے ہیں۔ لہٰذا یا تو اس فتنے کو جڑ سے اُکھاڑنے کا بندوبست کیا جائے یا پھر پرانی طرز تعمیر کے پیش نظر شہروں کو بلند و بالا فصیلوں سے محفوظ بنانے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اب اس شہر ناپرساں کو کنٹینروں سے بچانے کی تدبیر کارگر نہیں رہی۔ پورے ملک کا پہیہ جام کردینا اور لوگوں کو گھروں میں قید کردینا تو کوئی حل نہیں۔ اور پھر یہ معاملہ ایک آدھ ’’کال‘‘پر موقوف نہیں جب تک اقتدار و اختیار انکے حوالے نہیں کردیا جاتا، یہ تماشا یونہی چلتا رہیگا۔

پی ٹی آئی کا احتجاج : اسلام آباد جانے والے راستے دوسرے روز بھی بند

بلال غوری کے مطابق 2014 کے دھرنوں سے لیکر 24 نومبر 2024 کی فائنل کال تک، فتنہ و فساد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اب تو سیاسی استحکام ایک کال سے دوسری کال تک کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ حکومت مسلسل مدافعانہ طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے مثلاً موٹر ویز بند کرتے وقت کہا گیا کہ یہ شاہرائیں مرمت کی غرض سے بند کی جارہی ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ منقطع کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں شارک مچھلیوں نے تاریں کاٹ کھائیں اسلئے سروس دستیاب نہیں۔ تکلف برطرف، یہ بھونڈے جواز پیش کرنے کے بجائے صاف صاف کیوں نہیں کہا جاتا کہ ملک کو عمران خان نامی ایک ناگہانی آفت کا سامنا ہے، شہروں کو اس سے بچانے کیلئے یہ سب احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔

Back to top button