افغان طالبان پاکستان کو چھوڑ کر انڈیا کی گود میں کیوں گھس گئے؟

افغانستان کی طالبان حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد ایک بڑا پالیسی یو ٹرن لیتے ہوئے پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا تو جس کے بعد اب دونوں ممالک پیار کی پینگیں بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کو بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ عمومی خیال یہی تھا کہ برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان کی حکومت کے پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات ہوں گے۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا، طالبان حکومت نے نہ صرف پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی بلکہ پاکستان مخالف تحریک طالبان کی مدد بھی جاری رکھی۔ یوں دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گے۔

 

اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ جب 2021 میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی اور امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں افغان طالبان اقتدار میں آئے تو پاکستان میں بیشتر سفارتی اور عسکری امور کے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہو جائے گی۔ اگست 2021 میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ افغانستان کے عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد تب کے آئی ایس ائی چیف لیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے 5 ستمبر 2021 کو کابل کا اچانک دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ’پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا‘۔

 

لیکن پچھلے چار سالوں میں ٹھیک ہونے کی بجائے سب کچھ خراب ہو گیا۔ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان کے خلاف بھارت کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور یہ بھی بھلا دیا کہ پاکستانیوں نے کتنی دہائیوں تک 25 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کے علاوہ طالبان کو بھی پناہ دی۔

اب بظاہر پاکستان اور طالبان آمنے سامنے ہیں۔ پاکستان اس دورانیے میں بارہا کابل سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان کے خلاف کارروائی کرے جو ’افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔‘ لیکن طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کرتی ہے۔

 

اس صورتحال میں تنگ آ کر گذشتہ برس دسمبر کے آخر میں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ایک فضائی آپریشن کیا اور تحریک طالبان کے دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بنایا تھا۔ افغان طالبان حکومت نے اس ’فضائی کارروائی‘ پر اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا اور خبردار کیا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لیے سرخ لکیر ہے اور وہ اس کا جواب دے گا، اس کے بعد پاکستانی حدود میں واقع سرحدی چوکیوں پر طالبان کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔

 

پاکستانی سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستانی حکومت حالات میں بہتری کا سوچ رہی تھی، وہیں یہ بھی سمجھا جا رہا تھا کہ اس سے انڈیا کے خطے میں اثر و رسوخ کے اعتبار سے دھچکا پہنچا ہے۔ تاہم انڈیا اور افغان طالبان مسلسل ایک دوسرے کے قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کا رخصت ہونا انڈیا کے لیے بڑا دھچکا سمجھا جا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انڈیا نے غنی دور حکومت میں افغانستان میں جو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہ ضائع ہو جائے گی۔ لیکن گذشتہ چند برسوں میں انڈیا کے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھے ہیں اور ایک بار پھر افغانستان اور انڈیا کے تعلقات میں گرمجوشی نظر آ رہی ہے۔

 

انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے 8 جنوری کو دبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ طالبان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان انڈیا کو ایک اہم علاقائی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ اُن کی انتظامیہ کی انڈیا کے ساتھ اب تک کی اعلیٰ ترین سطح کی ملاقات تھی۔افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے انڈیا کے ساتھ تجارت بڑھانے پر بات چیت ہوئی ہے۔ انڈیا ایران میں چابہار بندرگاہ بنا رہا ہے تاکہ پاکستان کی کراچی اور گوادر پورٹ کو بائی پاس کر کے افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کی جا سکے۔

 

افغانستان کی وزارت خارجہ نے وکرم مصری سے ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں مزید کہا ہے کہ ’ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اور معیشت کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے۔ ہمارا مقصد انڈیا کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی شراکت داری کو مضبوط بنانا ہے۔‘ دوسری جانب اس ملاقات کے بعد انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے پر غور کیا جا رہا ہے اور تجارت بڑھانے پر بھی بات ہوئی ہے۔

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی شروع

 

لیکن یاد رہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے اب تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور انڈیا بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔ دبئی میں طالبان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی ملاقات پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم خارجہ امور کے ماہرین اسے پاکستان کے لیے ایک اہم پیغام کے طور پر دیکھا ہے۔

انڈیا کے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں پاکستان کے لیے نامہ نگار نروپما سبرامنیم نے لکھا ہے کہ ’دریائے کابل پر بننے والا شہتوت ڈیم طالبان کی ترجیح ہے۔ انڈیا اور افغانستان کے درمیان 2020 میں اس ضمن میں 250 ملین ڈالر کے ایک منصوبے پر معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد معاملات ٹھپ ہو گئے تھے۔ طالبان اب انڈیا سے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مصری کی طالبان کے وزیر خارجہ سے ملاقات پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے ایک سبق ہے، جو یہ سوچ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی آمد سے پاکستان کو فائدہ ہو گا اور انڈیا کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔

 

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حکام سوچ رہے تھے کہ کابل فتح کرنے کے بعد طالبان وہاں آ جائیں گے اور پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا، لیکن وہ ہمارے گلے میں پڑ گئے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’خارجہ پالیسی کو سمجھنے والوں کا نقطہ نظر سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ کبھی بریگیڈ کے کمانڈر تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سب کچھ سمجھ جائیں گے۔‘

Back to top button