کیا فوجی ٹرینر عمران نامی منہ زور گھوڑے کو سدھا پائیں گے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو اچھے سے معلوم ہے کہ عمران خان سمیت جتنے یوتھیے بھی قید ہیں، انھیں کسی گروہ نے اغوا نہیں کیا جو بات چیت کے نتیجے میں کل پرسوں تک رہا ہو جائیں، ان سب کو سول اور فوجی قوانین کے تیزابی آمیزے میں بھگو کے اندر رکھا جا رہا ہے۔ لہذا ان میں سے جو بھی رہا ہو گا وہ تب ہو گا جب کسی ’عدالتی طریقہ کار‘ کی قینچی سے مقدمات کی رسیاں کاٹی جائیں گی جیسا کہ شریف برادران اور انکے حامیوں کے ساتھ فروری 2024 کے الیکشن سے پہلے یا بعد میں ہوا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو یہ بھی معلوم ہے کہ 8 فروری کے انتخابی نتائج کے ازسرِ نو جائزے یا نئے شفاف انتخابات کا مطالبہ بھی کوئی نہیں مانے گا۔ یہ مطالبہ ماننے کا مطلب اب تک کے کیے کرائے پر پانی پھیرنا ہو گا۔

ویسے بھی جو حکومت بالکل ویسے ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کے چل رہی ہو جیسے عمران خان کی سابق حکومت چل رہی تھی، تو ایسی حکومت کیسے قبل از وقت انتخابات یا نقص زدہ انتخابات کی مرمت پر راضی ہو کر اپنے سیاسی و اقتداری بلیک وارنٹ پر دستخط کر سکتی ہے۔

وسعت اللہ کہتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ مکافات عمل ہے۔ انہوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا اور اب ان کے مخالفین اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت عمران حکومت سے اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس نے کم از کم تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات تو شروع کیے ہیں، چاہے انکا انجام کچھ بھی ہو۔ ویسے بھی جہاں فریقین کے ذہن ’یا ہم، یا تم‘ کی بنیاد پر کام کر رہے ہوں وہاں ذرا سی بھی لچک دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

عمران خان کے قریبی ساتھی ایک دوسرے پر حملے کیوں کر رہے ہیں؟

 

وسعت اللہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے مذاکرات کے نام پر سب کا زور وقت گزاری پر ہے ورنہ جو مطالبات پی ٹی آئی ہر دھرنے، ہر ٹویٹ اور ہر پریس کانفرنس میں دھراتی ہے انھیں تحریری صورت میں دوسرے فریق کو دینا اتنا بڑا ایشو نہ بن جاتا کہ ہمیں اس کے لیے خان صاحب سے اجازت لینا ہو گی، پھر اجازت کے لیے جیل میں ملاقات کرنا ہو گی، یہ ملاقات ایسے ماحول میں ہو جو جاسوسی آلات سے پاک ہو۔ اگر پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم پر عمران خان تک بلا رکاوٹ مسلسل رسائی کا احسان کر بھی دیا جائے تو بھی کون سا بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، علیمہ خان یا گنڈا پور نے عمران خان کو جیل تڑوا کے فرار کروا لینا ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ یہ ضروری تو نہیں کہ حکومت ہر قدم پر یہ ثابت کرنے کا ادنی ترین موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دے کہ دیکھو دیکھو ہم کتنے بااختیار ہیں، ہم کوئی ’فارمی‘ سرکار نہیں۔ شاید یہ ’اختیار‘ ثابت کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ جس طرح عمران خان کو سلیکٹڈ وزیرِ اعظم کا طعنہ سن کر غصہ آتا تھا، ایسا ہی غصہ موجودہ وزیرِ اعظم کو اردلی کا طعنہ سن کے آتا تو ہو گا۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو فوج کا اردلی قرار دے دیا ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اردلی کو بھی اگر کوئی اوئے اردلی یا ابے اردلی کہہ کر پکارے تو منہ لال تو ہوتا ہے، چے جائے کہ آپ کسی وزیرِ اعظم کو سیدھا سیدھا اس کے منہ پر سلیکٹڈ یا اردلی کہہ دیں۔ لیکن شہباز شریف کو اردلی قرار دیتے ہوئے عمران خان شاید یہ بھول گئے کہ وہ خود جنرل باجوا کو اپنا باپ قرار دیتے تھے اور اپنی اپوزیشن سے بطور وزیراعظم فوجی بوٹ پالش کرنے کے طعنے سنا کرتے تھے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جس طرح پی ٹی آئی کا مفاد بس اتنا ہے کہ حکومت کو مسلسل پنجوں کے بل کھڑا رکھے تاکہ وہ سکون سے اپنے ایجنڈے پر کام نہ کر سکے، بالک اسی طرح موجودہ حکومت بس یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح اپنی مدت پوری کر لے، بھلے اس کے لیے آئین و قوانین میں کتنا ہی ردوبدل کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسے امید ہے کہ تب تک معیشت و امن و امان کے محاذ پر کوئی ایسا تیر مار لے کہ پی ٹی آئی کے منڈیر پر بیٹھے نیم دل ووٹروں کا دل نرم ہو جائے۔ دوسری جانب عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مفاد بس اتنا ہے کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام بھلے رہے مگر ایک دائرے سے باہر نہ نکلے تاکہ کلیدی سیاسی و معاشی معاملات اور اداروں پر آہنی گرفت ڈھیلی نہ ہونی پائے بلکہ شکنجہ تھوڑا اور کسا جائے تو کیا کہنے۔

وسعت اللہ کے بقول اسٹیبلشمنٹ کو امید ہے کہ جس طرح پچھلے ستتر برس میں پاپولر جماعتوں اور لیڈروں کو راستے سے ہٹانے یا تھکا تھکا کے مارنے کی پالیسی کامیاب رہی اس بار بھی اس پالیسی کو آگے بڑھانے میں بظاہر کوئی بقائی رکاوٹ نہیں۔ اس وقت سب لائن میں ہیں سوائے ایک منہ زور گھوڑے کے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گھوڑے کے ٹرینر کا چابک پہلے تھکتا ہے یا اس سے پہلے گھوڑے کا زور ٹوٹتا ہے۔ ٹرینر اور گھوڑے کے مذاکرات تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب اڑیل گھوڑا بھی دیگر گھوڑوں کی طرح سدھنے پر آمادہ ہو جائے۔

Back to top button