کاروں کی معلومات بتانے سے بزدار کی جان کو خطرہ کیسے؟

پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کے زیر استعمال سرکاری کاروں کی تفصیلات حاصل کرنے کی دائر کردہ درخواست وزیراعلی ہاوس نے یہ کہہ کر مسترد کر دی ہے کہ بزدار کی گاڑیوں کی انفرمیشن اس لیے نہیں دی جا سکتی کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ بزدار کے زیر استعمال کاروں کی تفصیل حاصل کرنے کے لیے لاہور کے معروف وکیل عبداللہ ملک نے پنجاب ٹرانسپرینسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست کو نو ماہ سرد خانے میں رکھنے کے بعد اب تفصیلات دینے سے صاف انکار کر دیا گیا ہے۔
سرکاری کاروں کے استعمال کی لاگ بک تفصیلات دینے سے بھی یہی کہہ کر انکار کر دیا گیا ہے کہ اس سے وزیر اعلی کی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اسکے علاوہ وزیر اعلی ہاؤس میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل دینے کی بجائے صرف بجٹ میں مختص کی گئی کل رقم بتائی گئی ہے۔ درخواست گزار عبداللہ ملک کا کہنا ہے کہ وہ بزدار کی جانب سے مطلوبہ۔معلومات چھپانے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے کیونکہ عوامی ٹیسکوں سے خریدی گئی کاروں اور ان کے استعمال کی انفرمیشن نہ تو قانون کے مطابق کوئی خفیہ معاملہ ہے اور نہ ہی اس میں وزیر اعلی کے لیے کوئی سیکیورٹی رسک موجود ہے۔ تاہم ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کے زیر استعمال گاڑیاں اور ان پر اٹھنے والے اخراجات سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے دور سے کم ہی ہیں۔
یاد رہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی تحریک انصاف حکومت نے سب سے زیادہ زور عام شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے پر دیا تھا۔ پنجاب کے پہلے وزیر اطلاعات نے مسلسل کئی پریس کانفرنسز میں سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیا کہ ان کی حکومت سب سے پہلے معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد پر یقین رکھتی ہے تاکہ عوام کو شفافیت کا یقین دلایا جا سکے۔ لیکن عملی طور پر موجودہ حکومت رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کو فعال کرنے اور شہریوں کی درخواستوں پر انہیں وزیر اعلی، وزرا اور سرکاری حکام کو ملنے والی مراعات اور اخراجات کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکاری ہے۔ اس معاملے میں وزیراعلی اپنے وزیراعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے سرکاری توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا ہے۔
لاہور کے وکیل عبداللہ ملک نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت وزیر اعلی پنجاب ہاؤس کو درخواست دی تھی کہ انہیں عثمان بزدار کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں، ان کے استعمال، لاگ بک اور وزیر اعلی ہاؤس کے اخراجات کی تفصیل فراہم کی جائیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ وزیر اعلی کے نام پر سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال ہورہا ہے اور وزیر اعلی ہاؤس کے اخراجات بھی غیر ضروری طور پر کیے جا رہے ہیں۔
درخواست میں وزیر اعلی پنجاب کے صوابدیدی فنڈز اور ان کے استعمال کی تفصیلات بھی مانگی گئی تھیں اور یہ معلومات دینے کا بھی کہا گیا کہ ایک سال میں موجودہ اور سابق وزیر اعلی پنجاب کے اخراجات کے موازنے کی تفصیل بھی دی جائے۔ لیکن حکومتی تحریری جواب میں وزیر اعلی ہاؤس کی جانب سے بزدار کے زیر استعمال گاڑیوں کے استعمال اور ان کی لاگ بک دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا ہے کہ معلومات تک رسائی کے قانون پنجاب ٹرانسپرینسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کی شق 13(1)(b) کے تحت پرائیویسی کا حق رکھنے اور وزیر اعلی کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے باعث یہ معلومات جاری نہیں کی جا سکتیں۔ جبکہ وزیر اعلی ہاؤس کے اخراجات کی تفصیل کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ اسکا سالانہ بجٹ 34 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے۔
اس معاملہ پر جب درخواست گزار عبداللہ ملک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی عثمان بزدار شفافیت اور معلومات تک رسائی کے دعوے کرتے تھے اسی لیے انہوں نے وزیر اعلی پنجاب کے زیر استعمال گاڑیوں و دیگر اخراجات کی معلومات کے لیے قانونی طور پر اپنا حق استعمال کرتے ہوئے درخواست دی تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ اس درخواست کا جواب نہ صرف نو ماہ بعد دیا گیا بلکہ مطلوبہ معلومات دینے سے بھی صاف انکار کردیا گیا ہے۔‘ان کے مطابق اس معاملہ پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیاجائے گا کیونکہ حکومت معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہے جس سے حکومت پنجاب کی بدنیتی واضع ہے۔
اس بارے میں ترجمان پنجاب حکومت فیاض چوہان نے کہا کہ ’وزیر اعلی پنجاب کے زیر استعمال جتنی بھی گاڑیاں ہیں یا وزیر اعلی ہاؤس کے جتنے بھی اخراجات ہیں بس یہ یقین رکھیں کہ وہ شہباز شریف دور کے مقابلہ میں بہت کم ہیں’۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان بھی سرکاری توشہ خانہ سے اپنے لیے خریدے گے غیر ملکی تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔