9 مئی کے مجرموں کا اپیلوں میں بھی بچنا ممکن کیوں نہیں ہے؟
نو مئی 2023 کی شرپسندانہ کارروائیوں میں ملوث 85 مجرمان کو فوجی عدالتوں کی جانب سزائیں سنائے جانے کا معاملہ ملکی سیاسی و قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے جہاں ایک طرف سزاؤں کے آئینی و قانونی پہلوؤں بارے سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہیں تجزیہ کاروں کے مابین اس حوالے سے بھی بحث جاری ہے کہ کیا فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے یوتھیوں کی معافی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟ کیا مجرمان کو اپنی سزاؤں کیخلاف اپیل کا حق حاصل ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابق فوجی عدالتوں سے دو تا 10 سال تک قید بامشقت کی سزا پانے والے مجرمان اپنی سزاؤں کے خلاف آرمی چیف، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ ٹرائل میں خامیوں کی صورت میں کالعدم قرار دے سکتی ہیں، تاہم فوجی عدالتوں کے 9 مئی کے کیسز کے حالیہ فیصلوں میں ’ڈیجیٹل شہادتوں‘ کا اہم کردار ہے۔اگر ان فیصلوں میں جرائم ثابت کرنے کے ثبوت اور شہادتیں ناقابل تردید ہوئیں تو سزائیں برقرار رہیں گی۔ حالیہ واقعات میں سب سے اہم کردار ڈیجیٹل شہادتوں کا ہو سکتا ہے چونکہ ملزمان کو ٹھوس واقعاتی و تکنیکی ثبوتوں کی بنیاد پر سزائیں سنائی گئی ہیں اس لئے 9 مئی کے مجرمان کا سزائیں بھگتے بغیر جیل سے باہر آنا ناممکن دکھائی دیتا ہے جبکہ 9 مئی کے حوالے سے مقتدرہ کے سخت موقف کی وجہ سے شرپسندوں کو آرمی چیف یا صدر کی جانب سے معافی ملنے کھ امکانات بھی معدوم ہیں۔ اس لئے یوتھیوں کا سزا مکمل کئے بغیر رہائی کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
خیال رہے کہ نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران لاہور سمیت مختلف شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں 105 ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے فوج کے حوالے کیا تھا، جن میں سے 21 دسمبر کو پہلے مرحلے میں 25 مجرمان کو مختلف مدت کے لیے قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ مزید 60 کی سزاؤں کا اعلان 26 دسمبر کو کیا گیا۔ جبکہ 20 ملزمان کو آرمی چیف کی جانب سے معافی ملنے کے بعد رہا کیا جا چکا ہے۔ اس طرح عسکری تحریک میں موجود تمام مجرمان اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں جبکہ اب 9 مئی کے اصل منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ پر ہاتھ ڈالنے کی تیاریاں شروع ہیں۔
تاہم 85 مجرمان کو فوجہ عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائے جانے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کی اپیلیں ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں منظور ہو سکیں گی یا نہیں؟ کیا انھیں عدالت عالیہ یا عدالت عظمی سے کوئی ریلیف مل۔سکتا ہے؟فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کس بنیاد پر چیلنج کیا جاسکتا ہے؟
فوجداری مقدمات کے ماہر قانون دان برہان معظم کہتے ہیں کہ ’فوجی عدالتوں میں سمری ٹرائل ہوتا ہے جو محدود مدت میں مکمل کیا جاتا ہے، اس لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے پر سقم سامنے آنے پر فیصلہ کالعدم ہو سکتا ہے۔ اگر شہادتیں اور ثبوت ناقابل تردید ہونے کی بنیاد پر فیصلے ہوں تو پھر انہیں کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
برہان معظم کے مطابق’فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے بعد انہیں تین طرح سے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے آرمی چیف کے پاس اپیل کی جا سکتی ہے۔ ان کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ رحم یا فیصلے میں خامیوں کی بنیاد پر سزا ختم کر دیں۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں رِٹ کے ذریعے ان فیصلوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں عدالتوں نے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیا ہے، لیکن عدالتوں میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ ٹرائل فیئر تھا یا نہیں، جس کی بنیاد پر فیصلہ دیا گیا ہے۔‘
برہان معظم کے بقول: ’فوجی عدالتوں میں تفصیلی کی بجائے سمری ٹرائل ہوتا ہے جس میں پہلے ملزم کے خلاف انکوائری کی جاتی۔ شہادتیں اور ثبوت اکھٹے کیے جاتے ہیں اور مختصر عرصے میں فیصلہ سنا دیا جاتا ہے، لہذا بہت امکان ہوتا ہے کہ تفصیلی ٹرائل نہ ہونے پر خامیاں رہ جاتی ہیں۔ ان کی بنیاد پر ملزموں کو فائدہ ہوتا ہے اور فیصلہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔‘ ماضی قریب میں فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزائیں پشاور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس وقار سیٹھ کالعدم قرار دے چکے ہیں، جو سپریم کورٹ نے عمران خان حکومت کی اپیل پر دوبارہ بحال کر دی تھیں۔‘
ایکس سروس مین فورم کے لیگل کنوینیئر کرنل ریٹائرڈ امام نے 9 مئی کے کیسز میں ’ڈیجیٹل شہادتوں‘ کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’نو مئی کیسوں میں پی ٹی آئی کارکنوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق سب سے اہم کردار ڈیجیٹل شہادتوں کا ہے۔ فوجی عدالتوں میں بیشتر انہیں ملزمان کا ٹرائل کیا گیا جن کے خلاف ڈیجیٹل شہادتیں موجود ہیں۔ حیران کن طور پر میرے پاس نو مئی کے متعدد ملزمان کے اہل خانہ آئے تو انہوں نے خود بتایا کہ نو مئی واقعات کی وائرل ویڈیوز ملزمان نے خود بنائی تھیں۔ ’اس کے بعد جو انکوائری رپورٹس بنائی گئی ہیں اور ثبوت جمع کیے گئے ان کی بنیاد پر ٹرائل ہوا تو سقم رہنے کا چانس کافی کم دکھائی دیتا ہے۔‘ قانونی ماہرین کے مطابق ’نو مئی کے ان ملزمان کے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں میں سزاوں کے کالعدم ہونے کا امکان کم ہے جن میں ڈیجیٹل شہادتیں موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق لاہورہائی کورٹ نے قانون شہادت آرٹیکل 164 میں ضلع قصور میں زینب زیادتی کیس کے دوران ڈیجیٹل شہادت کو مستند تسلیم کر کے قانون کا حصہ بنایا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اس حوالے سے ڈیجیٹل شہادت کو تسلیم کرنے کے لیے 22 شرائط رکھی ہوئی ہیں۔‘
افغانستان میں پاک فضائیہ نے TTP کے کن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ؟
ان کے مطابق: ’اس میں یہ شرط بھی ہے کہ ویڈیو بنانے والا خود شہادت دے کہ ویڈیو ریکارڈنگ اس نے کی اور ڈیوائس بھی پیش کرے۔ اسی طرح شرائط میں ویڈیو کے اصلی ہونے کی فرانزک رپورٹ بھی شامل ہے، لگتا ہے ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی نو مئی کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں نے فیصلے سنائے ہوں گے۔ جو ویڈیوز میڈیا پر سزا پانے والے ملزمان کی شناخت کے ساتھ چلائی جا رہی ہیں، ان سے نہیں لگتا کہ ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر ملزمان کو کوئی ریلیف ملے گا۔‘