ٹرمپ کے شکریے کے باوجود پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل غیر یقینی کیوں؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک خطرناک دہشت گرد امریکہ کے حوالے کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے باوجود پاکستانیوں پر ممکنہ سفری پابندی کی خبروں نے پاک امریکہ تعلقات کی بحالی کے امکانات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لیے یہ سفری پابندی حکومت کی جانب سے سکیورٹی اور ویزا جانچ پڑتال کے خدشات کے جائزے کی بنیاد پر لگائی جا رہی ہے اور اگلے ہفتے تک نافذ بھی ہو سکتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایسا کوئی بھی فیصلہ دونوں ممالک کے آگے بڑھنے میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستانیوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی خلیج مزید گہری ہو جائے گی جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے واشنگٹن کے ساتھ تعاون برقرار رکھنا اور انہیں آگے بڑھانا مزید مشکل ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے کانگریس سے حالیہ خطاب میں پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے اسکا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اس نے امریکہ کو کابل ہوائی اڈے پر اگست 2021 میں ہونے والے خود کش حملے کے ماسٹر مائنڈ کو پکڑنے میں مدد دی ہے، اس حملے میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری مارے گئے تھے، یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ امریکی صدر نے خود اس کا اعلان کیا۔ امریکی صدر کے ان الفاظ نے اسلام آباد میں کچھ امید جگائی کہ واشنگٹن کے ساتھ اسکے کشیدہ تعلقات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ چار سال قبل جب امریکہ نے افغانستان سے فوجوں کا انخلا کیا تو پاک امریکہ تعلقات سرد پڑ گئے تھے۔
درحقیقت ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ ادا کرنے سے پہلے اسلام آباد میں کافی بے چینی پائی جا رہی تھی اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے مطالبے کی کال آ سکتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی حکومت کے لیے کھلے عام ستائش کے پیغام نے دونوں ملکوں کے مابین کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امید پیدا کر دی تھی۔
لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تعاون کی مجموعی کامیابی سے پیدا ہونے والی امیدوں کے باوجود، پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکہ‘ والی پالیسی اور بدلتے ہوئے جیو سٹریٹیجک منظر نامے کے باعث، اس وقت واشنگٹن کی ترجیحات میں اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2021 میں افغانستان میں امریکہ کی دو دہائیوں پر محیط جنگ کے خاتمے کے ساتھ، نائن الیون کے بعد کے پاک امریکہ تعلقات ایک دائرہ مکمل کر چکے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے ناگزیر طور پر خطے کی جغرافیائی سیاست پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ تاریخی طور پر واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات ہمیشہ ایک محدود دائرے میں رہے ہیں، جو یا تو قلیل مدتی سکیورٹی مفادات کے تحت طے پاتے رہے یا کسی مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کی مجبوری کے تحت۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا کہ اب اس طرزِ تعلق سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئے انداز میں استوار کیا جا سکے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے پاکستان کے امریکہ کیساتھ تعلقات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کے معاملات سے آگے لے جانے کی ضرورت ہے، اگرچہ یہ معاملات بھی بدستور اہم رہیں گے۔ انکا کہنا ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست نے طاقتوں کے ایک نئے توازن کو جنم دیا ہے۔ ایخ جانب امریکہ اور انڈیا کے بڑھتے ہوئے سٹریٹیجک تعلقات اور دوسری طرف چین اور پاکستان کا مضبوط ہوتا اتحاد، دونوں اس نئی جغرافیائی سیاست کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے سٹریٹیجک روابط اور واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان شدت اختیار کرتی ہوئی کشیدگی بھی مستقبل کے پاک امریکہ تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ ایک اہم تجارتی اور اقتصادی شراکت دار ہے۔ امریکہ پاکستان کی برآمدات کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے اور ترسیلاتِ زر کا ایک بڑا ذریعہ بھی۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک میں شامل رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے، جسے امریکی تعاون سے مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اقتصادی استحکام حاصل کرنے کے لیے بھی امریکی مدد کی ضرورت ہے۔
لیکن پاک امریکہ تعلقات کو ازسرِ نو استوار کرنا یقیناً آسان نہیں ہو گا۔ عدم اعتماد کے اس ماحول میں محض لین دین پر مبنی تعلقات کو برقرار رکھنا بھی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ایسے میں برف پگھلانے کے لیے دونوں ممالک کو اعلیٰ سطح پر سیاسی قیادت کے درمیان بامعنی مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ ایک نئے تعلقاتی فریم ورک کی بنیاد رکھی جا سکے۔ انکا کہنا ہے کہ یقیناً، اسلام آباد کو افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکہ سے تعاون کرنا چاہیے، مگر یہ کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں کہ وہ خطے میں کسی نئے امریکی ’کھیل‘ کا حصہ بنے۔
خیبرپختونخواہ میں بڑھتی دہشت گردی کے بعد عوام نقل مکانی پر مجبور
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد انسدادِ بغاوت کی حکمتِ عملی کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال ملک کو ایک اور تنازعے کی طرف دھکیل سکتا ہے، جو کسی بھی صورت پاکستان کے لیے سودمند نہیں ہوگا۔
ہمیں یقیناً امریکہ کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے، مگر کسی نئے امریکی ’کھیل‘ میں خود کو شامل کر لینا دانش مندی نہیں ہوگی۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کو مذاکرات کے دوران اپنے مفادات اور ترجیحات کے بارے میں مکمل طور پر کلئیر ہونا چاہیے تاکہ دونون ممالک کے تعلقات ایسی شرائط پر طے ہوں جو ملک کے لیے سودمند ثابت ہوں۔