اگلے چند مہینوں میں سیاسی ماحول گرم کیوں ہونے جا رہا ہے؟

 

 

 

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں افواہیں گرم ہیں کہ اگلے تین ماہ میں سیاسی ماحول گرم تر ہونے جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں ستمبر کا مہینہ عموما ستمگر مہینے کے طور پر جانا جاتا ہے جس کے دوران ملکی سیاست کا رخ متعین کرنے والے کئی اہم ترین واقعات رونما ہوئے، لیکن گزشتہ چند برسوں سے ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینے بھی ملکی سیاست میں کافی ذیادہ اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔

 

پاکستانی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو عمومی طور پر اگست کے بعد سیاست میں ہلچل مچنا شروع ہو جاتی ہے، جسکے کئی محرکات ہیں۔ یاد رہے کہ 2022 کے آخری تین ماہ میں پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا، نومبر 2022ء میں تحریک انصاف کسی مبینہ اشارے پر سڑکوں پر آ کر بیٹھ گئی، 29 نومبر 2022 کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے ہونے والے عمران خان کی تمام تر مزاحمت کے باوجود نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا تقرر ہوا۔ اس سے اگلے برس یعنی 2023 کے آخری مہینوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نئے چیف جسٹس بنے جن کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے نئے انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا اور 8 فروری 2024 کو نئے الیکشن کروانے کا اعلان ہو گیا۔

 

2023 کے آخر میں تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھین کر اسے انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کا عمل شروع ہوا، اس سے اگلے برس، 2024ء کے آخر میں چھبیسویں آئینی ترمیم نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی، اس ترمیم نے ملک میں اعلیٰ عدالتی نظام کا سٹرکچر ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ، جس کے بعد ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کو لگام ڈالی گئی۔نومبر 2024ء میں ہی سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کی گئی، نومبر 2024 میں تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور پھر 26 نومبر کی رات پارٹی کی مرکزی قیادت بشمول بشری بی بی اور علی گنڈاپور جوتیاں اٹھا کر فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔ 26 نومبر 2024ء کو ہونے والے احتجاج کے دوران اسلام آباد میں شورش پید ا کرنے کی کوشش کی گئی لہٰذا تحریک انصاف 26 نومبر کے احتجاج کے کیسز بھگت رہی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 26 نومبر کے احتجاج کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور ختم ہو چکی ہے اور احتجاج کی تمام کالز بری طرح ناکامی کا شکار ہو رہی ہیں۔

 

اب سال 2025ء کا اگست ختم ہونے کو ہے، ایسے میں شہرِ اقتدار ایک مرتبہ پھر قیاس آرائیوں، چہ میگوئیوں، تبصروں اور تجزیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، اس مرتبہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر کئی حوالوں سے دلچسپی اختیار کر چکے ہیں، تحریک انصاف اپنی کمزور ترین حالت کے باوجود سیاسی ماحول گرمانے کیلئے پر تول رہی ہے۔ تاہم اگست کے مہینے میں عمران خان نے دو ایسے سیاسی بلنڈرز کیے ہیں جو پارٹی کی مستقبل کی سیاست کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہلا بلنڈر تو یہ ہے کہ عمران خان نے ضمنی انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے منع کر دیا ہے۔ دوسرا بلنڈر یہ ہے کہ عمر ایوب خان اور شبلی فراز کی ناہلی کے بعد بانی نے اپنی جماعت کے لیڈرز کو اپوزیشن لیڈرز نامزد کرنے کی بجائے محمود اچکزئی اور علامہ ناصر عباس کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرز نامزد کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سخت نالاں ہے کیونکہ وہ دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنا قائد ماننے کے لیے تیار نہیں۔

 

نومبر کا مہینہ اس لیے بھی اہم ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بریگیڈ یہ پروپگینڈا کر رہا ہے کہ نومبر 2025 میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے عہدے کی معیاد ختم ہو رہی ہے۔ اگرچہ چار نومبر 2024ء کو پارلیمنٹ کے ذریعے مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی تھی مگر انصافی حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تقرری کا نوٹیفکیشن چونکہ 29 نومبر 2022 ء کو تین سال کیلئے ہوا تھا اس لیے شاید ابھی نیا نوٹیفیکیشن جاری ہونا ہے۔ یوں ان سیاسی حلقوں کی جانب سے قومی سلامتی کے اہم ترین معاملے کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم حکومت کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلح افواج کے سربراہان کی پانچ سالہ مدت طے شدہ ہے اور اس حوالے سے کوئی قانونی اقدام درکار نہیں، حکام کا کہنا ہے کہ چار نومبر 2024ء کو ہونے والی قانون سازی کے بعد تینوں چیفس اپنی تعیناتی کے بعد پانچ سال پورے کریں گے، یہ ترمیم حکومت کی منظوری سے ہی پارلیمان کے ذریعے ہوئی تھی، اس میں کوئی ابہام نہیں۔

 

حکام نے بتایا ہے کہ ایئر چیف ظہیر احمد بابر سدھو، جن کی تقرری 19 مارچ 2021ء کو ہوئی تھی ،اسی قانون کے تحت اپنی خدمات کا چوتھا سال جاری رکھے ہوئے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ مارچ 2026ء میں اپنی موجودہ مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بھی وہ اپنی خدمات جاری رکھیں گے کیونکہ معرکہ حق میں شاندار کامیابی کے بعد حکومت نے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی خدمات جاری رکھنے کا اعلان 20 مئی 2025ء کو کیا تھا۔

 

اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تقرری چونکہ 29 نومبر 2022ء کو ہوئی تھی یہ پانچ سالہ مدت 29 نومبر 2027ء کو مکمل ہوگی، پارلیمان یہ اختیار حکومت کو دے چکی ہے کہ وہ سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی خدمات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے جس میں عمر کی کوئی قدغن نہیں۔

 

یاد رہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں ہونے والی ترمیم میں کہا گیا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن پر نہیں ہوگا، اسی طرح پاکستان نیول آرڈیننس 1961ء میں کہا گیا ہے کہ نیول چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور ایڈمرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر، سروس کی حد کا اطلاق نیول چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع پر نہیں ہوگا، پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953ء میں ہونے والی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ایئر چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور ایئر چیف مارشل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق ایئر چیف کی تعیناتی ، دوبارہ تعیناتی یا توسیع پر نہیں ہوگا۔

 

ان تینوں قوانین میں ہونے والی ترمیم کے بعد صورتحال واضح ہے کہ موجودہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا، اسی تسلسل کی پہلی کامیابی ظہیر احمد بابر سدھو کی صورت میں ملی جب مئی 2025ء کے معرکے میں پاکستان نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو تاریخی شکست دی، اس کے علاوہ دیگر کچھ تقریاں ضرور ہونی ہیں جو معمول کے طریقہ کار کے مطابق ہوں گی اور اس میں کسی ہلچل کی نہ تو گنجائش ہے نہ ہی امکان۔ جہاں تک سیاسی ماحول کا تعلق ہے تو ایک مرتبہ پھر ستمبر، اکتوبر اور نومبر میں بڑی آئینی ترمیم کی باز گشت سنائی دے رہی ہے، ستائیسویں آئینی ترمیم چھبیسویں ترمیم سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں بڑے آئینی سٹرکچرز تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بھی سنجیدہ غور و خوض شروع ہو چکا ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دیئے گئے اختیارات میں تبدیلیوں پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ گورننس کے سٹرکچر کو بہتر بنایا جا سکے، این ایف سی کی تشکیلِ نو کیلئے کمیٹی کا قیام پہلے ہی عمل میں آچکا ہے جو محاصل میں صوبوں کے شیئر کے کوٹے کا جائزہ لینے جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں دوبارہ سے سیاسی ماحول گرم ہونے کا امکان ہے۔

Back to top button