14 آئی پی پیز بند ہونے سے بھی بجلی کی قیمت کیوں کم نہیں ہو رہی؟
وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں بجلی پیدا کرنے والے مزید 14 انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یا آئی پی پیز کے ساتھ کیے گے معاہدوں پر نظرثانی سے سالانہ 137 ارب روپے کی بچت کا دعوی تو کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس بچت سے عوام کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کتنی کمی واقع ہو گی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی نہ ہونے کے مترادف یے۔
حکومتی اعلامیے کے مطابق مزید جن 14 آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی ہے ان میں سے چار 1994 کی پاور پالیسی اور دس 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگے تھے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا آغاز ہوا تھا۔ تب پہلی بار ملک میں آئی پی پیز کے ساتھ بجلی پیدا کرنے اور اُس کی خریداری کے لیے کیے جانے والے معاہدوں کے سلسلے میں پانچ کمپنیوں کے ساتھ پرانے معاہدے ختم کر کے ان پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی۔ گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں بیگاس یعنی گنے کے پھوک سے بجلی پیدا کرنے والے آٹھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی اِن کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے تب سے زیر بحث ہیں جب گزشتہ نگران کابینہ میں وزیرِ تجارت و داخلہ گوہر اعجاز کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں ان معاہدوں پر کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کی جانے والی رقوم پر تنقید کی گئی جو کئی سو ارب روپے بنتی ہے۔ پاکستان میں گذشتہ تین برس میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت کیا گیا، تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کرنے کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے پچھلے ہفتے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ملک میں بجلی پیدا کرنے والے مزید 14 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دے دی گئی ہے جس سے قومی خزانے کو کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 137 ارب کی سالانہ بچت ہو گی۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس بچت سے صارفین کے بجلی کے بلوں میں کتنی کمی واقع ہو گی۔
کابینہ کے نئے فیصلے کے مطابق اب ملک میں ایسے آئی پی پیز کی تعداد 27 ہو چکی، جن کے ساتھ حکومت نے بجلی کی خریداری کے لیے از سر نو معاہدے کی منظوری دی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر سیاسی اور کاروباری حلقوں اور میڈیا پر کڑی تنقید کی گئی ہے جس میں ان معاہدوں کو عام افراد اور کاروباری اداروں کے لیے بجلی کی قیمت زیادہ ہونے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ ان معاہدوں میں حکومت نے ضمانت دی تھی کہ وہ "ٹیک اور پے” Take or Pay کے فارمولے تحت بجلی کی قیمت ادا کرے گی، یعنی کہ حکومت بجلی خریدے نہ خریدے لیکن وہ اس کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہو گی۔کیونکہ ان پاور پلانٹس کے لیے بیرونی و اندرونی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضہ لیا جاتا ہے اس لیے کمپنیوں کو اس قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت کی ضمانت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ کمپنیاں حکومت کی جانب سے بجلی خریدنے یا نہ خریدنے دونوں صورتوں میں بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کر سکیں۔
یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے جب اکتوبر 2024 میں پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی تو اس سے بجلی صارفین کے بلوں میں کوئی قابل ذکر کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ان معاہدوں پر نظرثانی کے بعد بجلی کے بل میں صرف 70 پیسے فی یونٹ کمی کا تخمینہ سامنے آیا تھا۔ دسمبر 2024 میں آٹھ مزید آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد شعبہ توانائی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ بیگاس پر چلنے والے آئی پی پیز کا بجلی کی پیداوار میں معمولی حصہ ہے اس لیے ان معاہدوں سے بجلی کے بل میں نہ ہونے کے برابر کمی واقع ہو گی۔
بیگاس پر چلنے والے جن آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی یے ان کی مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 259 میگاواٹ ہے جس کا حصہ پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں بہت کم ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ میں توانائی شعبے کی ماہر عافیہ ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے 8 کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی کیونکہ بیگاس سے چلنے والے ان کارخانوں پر بجلی کی مجموعی پیداوار میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اکتوبر میں پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں اور اب آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد اگر مجموعی کمی لی جائے تو وہ صرف ایک روپیہ فی یونٹ کے قریب ہے۔
حکومتی ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کیس تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والےس پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔ ان آئی پی پیز میں حکومتی آئی پی پیز بھی شامل ہیں جن میں پانی اور نیوکلئیر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں۔
دو دو تین تین دروازوں سے مذاکرات بیک وقت نہیں چلتے : عرفان صدیقی
وفاقی حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے کی پیشرفت اور ان کے خاتمے کی وجوہات کے بارے میں شعبہ توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز کے اس مسئلے کو ایکس پر لانے کے بعد بہت زیادہ شور مچ گیا تھا اور حکومت بھی دباو کا شکار ہو گئی تھی۔ چناچہ حکومت نے خود پر تنقید کو کم کرنے اور فیس سیونگ کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا، لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے صارفین کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔