نواز شریف اور زرداری کو مولانا کے ہاتھ پر بیعت کیوں کر لینی چاہیے؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کمال کے سیاستدان ہیں جو اپنے سات ممبران قومی اسمبلی اور پانچ سینٹرز سمیت صرف 12 سیٹوں کے زور پر پورے سسٹم کو کھینچ کر اپنی دہلیز پر لے آئے۔ انہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے دونوں بڑی حکومتی جماعتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی باقاعدہ ناک سے لکیریں نکلوائیں اور آخر میں سب کو اپنی تعریف پر بھی مجبور کر دیا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آج اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی ممنون ہے‘ عمران خان بھی جیل میں ان کی تعریف کر رہے ہیں‘ پی ٹی آئی کی قیادت بھی مولانا زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہے‘ بلاول بھٹو نے بھی قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ان کی تعریف کی‘ نواز شریف نے بھی بار بار مولانا کا شکریہ ادا کیا‘ وزیراعظم اور صدر بھی ان کے ممنون ہیں اور ان سب کے ساتھ ملک بھر کے علماء کرام بھی مولانا کا ماتھا چوم رہے ہیں‘ یہ انھیں پاکستان میں اسلام کا محسن قرار دے رہے ہیں لہٰذا پھر کام یاب کون ہوا اور سیاست دان پھر کون ہوا؟ مولانا یا پھر باقی تمام سیاسی لیڈرز!۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ میں دل سے سمجھتا ہوں مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کی ایک بہت بڑی کیس سٹڈی ہیں‘ ان کا باقاعدہ مطالعہ بھی ہونا چاہیے اور ان پر پی ایچ ڈی بھی کی جانی چاہیئے‘ آپ مولانا کا کمال دیکھیں ریاست نے ان کے آدھے ارکان قابو کر لیے تھے‘ بلاول بھٹو اور اعظم نذیر تارڑ انھیں بار بار بتا رہے تھے حکومت نے ہر صورت ترامیم کرنی ہیں‘ ریاست کے پاس آپ اور پی ٹی آئی کے لوگ موجود ہیں‘ آپ کے ارکان آپ سے الگ ہو کر بھی ووٹ دے دیں گے اور اس سے آپ کی پارٹی ٹوٹ جائے گی لیکن مولانا اس کے باوجود پیچھے نہیں ہٹے اور حکومت کو ان کی پارٹی توڑنے کی جرات بھی نہیں ہوئی‘ پی ٹی آئی اور عمران خان دس سال مولانا کو کیا کیا کہتے رہے‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف بھی انھیں میدان میں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی انھیں فراموش کر دیا تھا لیکن مولانا ان سب کو واپس بھی لے کر آئے اور انھیں اپنی تعریف پر بھی مجبور کر دیا جب کہ ان کے مقابلے میں عمران خان ملک کے مقبول ترین لیڈر‘ کے پی میں دو تہائی کی حکومت کے مالک‘ قومی اسمبلی میں80 ایم این اے اورسینیٹ میں 17سینیٹرز رکھنے کے باوجود کہاں ہیں؟ یہ‘ ان کی پارٹی کے اندر چار گروپ بن چکے ہیں۔
تحریک انصاف وکلا اور سیاستدان دھڑوں میں کیوں تقسیم ہو گئی ؟
شاہ محمود قریشی کی قیادت میں فارورڈ بلاک بھی تیار ہے‘ پرویز الٰہی پارٹی چھوڑ کر لاہور میں بیٹھ گئے ہیں‘ خان کی سوشل میڈیا ٹیم ٹوٹ چکی ہے اور تمام فنانسرز اور سہولت کار بھی فرار ہو چکے ہیں‘ دوسری طرف نواز شریف بھی وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت کے باوجود زخمی اور اداس بیٹھے ہیں‘ ان کے متھے فارم 47 لگ گیا ہے تاہم مولانا کے بعد میاں شہباز شریف بھی کام یاب سیاست دان ثابت ہوئے ہیں‘ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا ان کے ہاتھ میں وزیراعظم کی لکیر نہیں لیکن یہ لکیر کی کمی کے باوجود دوسری بار وزیراعظم بنے‘ وہ ملک اور شریف فیملی کے پہلے ایسے وزیراعظم بھی ثابت ہوں گے جو پانچ سال پورے کرے گا لہٰذا پھر کام یاب کون ہوا؟ مولانااور شہباز شریف یا پھر قیدی نمبر 804۔
جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس بھی اب دو آپشن تھے‘ یہ نواز شریف اور مولانا کی طرح اپنی رائفل دھوپ میں رکھ کر خاموش بیٹھ جاتے اور اپنے وقت کا انتظار کرتے‘ آپ یقین کریں ان کا وقت بہت جلد آ جانا تھا اور دوسرا یہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح شور کر کے اپنی سزا اور مسائل میں اضافہ کر لیتے‘ عمران خان بدقسمتی سے دوسرے راستے پر نکل گئے ہیں اور آج اکیلے ہو چکے ہیں۔
سیاست سپورٹس کی طرح ہوتی ہے‘ان دونوں کا مقصد جیتنا ہوتا ہے۔ آپ نے اگر اقتدار میں نہیں آنا تو پھر سیاست کی کیا ضرورت ہے؟ آپ خدمت خلق کریں اور ثواب اور عزت کمائیں‘ آپ نے اگر 80 ایم این اے اور سب سے زیادہ ووٹ لے کر بھی جیل میں ہی بیٹھنا ہے تو پھر سیاست پر لعنت بھیجیں‘ اس کا پھر آپ کو کیا فائدہ ہوا؟ لہٰذا عمران خان کو اب سیاست مولانا سے سیکھنی چاہیے، بلکہ نہیں رکیے، آصف زرداری اور نواز شریف کو بھی اب مولانا کو اپنا استاد مان لینا چاہیے کیوں کہ ملک میں اب سیاست دان صرف ایک ہے اور اس کا نام ہے مولانا فضل الرحمن ہے‘ جو حقیقتاً سب پر بھاری ہیں اور سب کو اب ان کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے۔