ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے پہلے عمران کو سزا کیوں سنا دی گئی؟
عمران خان کو امریکی صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے 72 گھنٹے پہلے 190 ملین پاؤنڈز کیس میں 14 برس قید کی سزا سنانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ ان کے کیس کے حوالے سے حکومت پاکستان پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کر سکے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ سے مسلسل یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی بانی پی ٹی ائی کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔ صدر ٹرمپ کے مشیر رچرڈ گرینیل پہلے ہی عمران کی رہائی کے حوالے سے کئی ٹویٹس کر چکے ہیں۔ تاہم عمران خان کو سزا کے بعد ٹرمپ کے لیے ایک سزا یافتہ شخص کی رہائی کے لیے حکومر پاکستان دباؤ ڈالنا کافی مشکل ہوگا۔
تاہم عمران خان کی جماعت کے کئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف نے بھی نواز شریف کو سزا ہو جانے کے بعد ہی بیرون ملک بھیجا تھا لہذا عمران کی رہائی کی ڈیل کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سزا کے خلاف اپنے پہلے رد عمل میں عمران خان نے ٹویٹ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ فوج اور حکومت سے کوئی ڈیل نہیں کریں گے اور انہیں جتنا بھی عرصہ قید کاٹنی پڑے وہ ڈٹ کر کاٹیں گے۔ دوسری جانب عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکراتی عمل کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا نظر آتا ہے۔ خود کو سزا سنائے جانے کے بعد عمران نے بھی اپنی ٹویٹ میں مذاکراتی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی اجازت ہی اس امید پر دی تھی کہ اس کے نتیجے میں وہ قید کی سزا سے بچ جائیں، لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔
یاد رہے کہ 17 جنوری کو 190 ملین پاونڈز کیس میں عمران خان کو 14 سال جب کہ اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ سزا کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا جب تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے ہمراہ آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق کی تھی اور اس امید کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ شاید دونوں فریقین کے مابین کوئی ڈیل ہونے جا رہی ہے۔ بیرسٹر گوہر خان نے کہا تھا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں انہوں نے اپنے مطالبات اُن کے سامنے رکھے تھے۔ بیرسٹر گوہر خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ملاقات میں دوسری جانب سے مثبت اشارے ملے ہیں، تاہم ایک روز بعد ہی اس فیصلے نے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان دُوریوں کے تاثر کو تقویت دی ہے۔
خیال رہے کہ آرمی چیف نے خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی صورتِ حال پر صوبے کی سیاسی قیادت کے ساتھ پشاور میں ایک نشست کی تھی جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور بھی شریک ہوئے تھے۔ تاہم پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کا اب بھی یہ کہنا ہے کہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ دباؤ ڈالنے کے لیے سزائیں بھی ہوتی رہتی ہیں، لیکن کب صورتِ حال بدل جائے اس بارے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ جہاں تک بات ہے حکومت سے مذاکرات کی تو پی ٹی آئی کے مختلف رہنما یہ بیان دے چکے ہیں کہ مذاکرات کا 190 ملین پاؤنڈ کیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر عمران خان کو سزا ہو بھی جاتی ہے تو مذاکرات جاری رہیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بھی تاثر دیا گیا کہ اُن ملاقاتوں کے نتیجے میں شاید عمران کو ریلیف ملے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ موجودہ فوجی قیادت تحریکِ انصاف کے ساتھ کوئی سیاسی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی اور بیرسٹر گوہر سے ملاقات میں بھی شاید سیاسی صورتِ حال پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
پاکستان میں جمہوری اقدار سے متعلق ادارے ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مذاکرات اور دباؤ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ کیوں کہ جب مذاکرات ہو رہے ہوں تو باقی چیزیں نہیں رُکتیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جاتے اور کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو پھر سزاؤں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سزا کے خلاف اپیلیں ہوں گی اور وہاں بھی ریلیف ملنے کا موقع موجود ہے۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اِس مقدمے میں سزا تو ہونا ہی تھی جس کی وہ توقع بھی کر رہے تھے البتہ اِس نکتے پر بات ہو سکتی ہے کہ سزا کم ہونی چاہیے تھی یا زیادہ۔ سزا ہونے کی توقع زیادہ اور بری ہونے کی توقع کم تھی کیوں کہ عمران خان کے خلاف اب تک جتنے بھی مقدمات بنے ہیں اُن میں یہ مضبوط کیس ہے۔ کالم نویس اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ اگر آرمی چیف اور پی ٹی آئی قیادت کی ملاقات میں کوئی پیش رفت ہوتی تو عمران خان کو فی الحال سزا نہ ہوتی۔ اُن کا کہنا تھا کہ آگے اپیل میں کیا ہوتا ہے یہ الگ بات ہے۔ لیکن مذاکرات کی صورتِ حال جہاں تک بات ہے مذاکرات کی تو ابھی صورتحال ڈانواں ڈول ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر فوجی قیادت کا نو مئی اور 26 نومبر کے حوالے سے مؤقف واضح اور سخت ہے۔
14 برس سزا پانے کے بعد عمران دوبارہ فوجی قیادت پر حملہ آور
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اِس وقت فوجی قیادت پر کوئی دباؤ نہیں ہے کہ وہ عمران خان سے یا تحریکِ انصاف سے کوئی سیاسی بات چیت کریں۔ اسکے علاوہ عمران کے لیے جو بیرونی دباؤ آ رہا تھا اُس کا بھی تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے۔ اُن کی رائے میں پی ٹی آئی خود سے اپنی مرضی کا پروپیگنڈا تخلیق کرتی ہے، اُسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور خود سے ہی اُسے ماننے لگ جاتی ہے۔ سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اگر آرمی چیف کو پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کرنا ہوتا یا ملاقات کرنا ہوتی تو ایسی ملاقاتیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جن کا نہ کسی کو پتا ہوتا ہے اور نہ ہی اُن کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس ملاقات کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ملاقات میں سیاسی باتیں بھی ہوئی ہیں جس کا سیکیورٹی ادارے نے دو ٹوک بتا دیا تھا کہ یہاں پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہو سکتی۔