26ویں آئینی ترمیم اپلائی کرنے کے لیے ایک اور ترمیم کیوں لانا پڑے گی؟
پارلیمنٹ کی جانب سے عدالتی اصلاحات پر مبنی 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہو جانے کے باوجود قانونی ماہرین اصرار کر رہے ہیں کہ اس میں ایک سنگین خامی یا سقم موجود ہے جسے ٹھیک کیے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور ایسا صرف 27 ویں ترمیم کے ذریعے ہی ہو پائے گا۔
ماہرین نے آئینی ترمیم میں سقم کی نشاندہی کردی
اب جب کہ 26ویں آئینی ترمیم پاس ہو چکی ہے اور نئے چیف جسٹس کا اعلان بھی کیا جا چکا یے تو قانونی ماہرین کو اس میں ایسے کئی سقم دکھائی دے رہے ہیں جو کسی بھی وقت صورت حال کو بند گلی میں لے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نئے چیف جسٹس کا نام تجویز کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے یہ نام دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہے۔ لیخن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر کسی وجہ سے پارلیمانی کمیٹی ایک واضح نام کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر پاتی تو ایسی صورت حال میں کیا ہو گا؟
کیا سپریم کورٹ کسی چیف جسٹس کے بغیرکام کر سکتی ہے؟
قانون دان کہتے ہیں کہ ’یہ ایک عجیب صورت حال ہو گی کیونکہ منگل کی رات جب 11 بجے تک کمیٹی کسی نام پر متفق نہیں ہوسکی تھی تو سب سے بڑا سوال ذہنوں میں یہی آرہا تھا کہ اگر نئے چیف جسٹس کے نام پر دو تہائی اکثریت سے اتفاق نہ ہوا تو پھر کیا صورت حال ہو گی؟ اس ترمیم میں ایسی صورت حال سے نکلنے کا راستہ موجود نہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ایسی صورت میں قائم مقام چیف جسٹس کیسے کام کرے گا، یا کیا سپریم کورٹ کسی چیف جسٹس کے بغیر کام کرے گی؟‘
چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئےہرقدم کی وضاحت رکھی گئی،ماہرین
اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے تو ہر ایک قدم کی وضاحت رکھی گئی ہے یعنی کہ اگر کوئی جج عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دے گا تو اگلے سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس نامزد کیا جائے گا۔ وہ بھی انکار کر دے تو اس سے اگلا جج نامزد کیا جائے گا۔
کمیٹی کسی چیف جسٹس کیلئے کسی نام پر متفق نہ ہو تی توکیاہوتا؟
لیکن پارلیمانی کمیٹی اپنی طرف دھیان دینا بھول گئی کہ اگر ممبران میں کسی ایک جج کے نام پر اتفاق نہیں ہو پاتا تو پھر کیا ہوگا صاف نظر آرہا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں اس سوال کا جواب اس لیے موجود نہیں کہ یہ ساری قانون سازی عجلت میں کی گئی۔
نئے آئینی بینچ کس طرح کے آئینی کیسز سنے گا،ماہرین کا سوال
اسی طرح قانونی ماہرین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ نئے آئینی بینچ کس طرح کے آئینی کیسز سنے گا کیونکہ ہر درخواست میں کہیں نا کہیں کسی آئینی شق کے ذریعے ہی داد رسی مانگی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جج کو پہلے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کوئی بھی کیس آئینی بینچ سنے گا یا عام عدالت۔
جسٹس منصور نے بھی ترمیم ہونے پرکئی درخواستوں پرسماعت نہیں کی
جسٹس منصور علی شاہ نے بھی یہ آئینی ترمیم پاس ہو جانے کے اگلے ہی روز کئی درخواستوں پر سماعت نہیں کی اور ریمارکس دیے کہ ان میں آئین کی تشریح کا سوال ہے لہازا اب یہ کیسز آئینی بینچ ہی سنے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 26ویں ائینی ترمیم پاس کرواتے وقت یہ وضاحت ضروری تھی کہ ان آئینی بینچوں کی مقصدیت کیا ہے۔ اگر خیبر پختون خواہ کی اسمبلی آئینی بینچ بناتی ہی نہیں تو وہاں آئینی درخواستیں کون سنے گا کیونکہ اب آئین کی منشا تو یہ ہے کہ آئینی درخواستیں صرف آئینی بنچ سن سکتا ہے۔‘
صوبوں میں آئینی بنچز کی اجازت بھی ضروری قرار
خیال رہے کہ صوبوں میں آئینی بینچوں کی تشکیل کے لیے صوبائی اسمبلیوں سے ان بینچز کی تشکیل کی اجازت لینا بھی ضروری ٹھرایا گیا ہے۔
خیبرپختونخواحکومت پہلے ہی آئینی ترمیم کو مسترد کرچکی ہے
اس وقت خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وہ پہلے ہی اس آئینی ترمیم کو رد کر چکی ہے۔ ایسے میں یہ سوال سر اٹھاتا نظر آ رہا ہے کہ وہاں کے آئینی مسئلے کیسے حل ہوں گے۔ جو لوگ آئینی ترمیم میں تکنیکی نقائص کی نشاندہی کر رہے ہیں ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو کچھ مسائل کے حل کے لیے 27 ترمیم لانا ہو گی۔
آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ غلطیاں املا کی نکل آئیں
انکے خیال میں 26ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ غلطیاں تو املا کی ہیں۔ جہاں ’کومہ‘ لگنا تھا وہاں ’فل سٹاپ‘ لگا دیا گیا اور فل سٹاپ کی جگہ کومہ لگا دیا گیا۔ ایسے میں مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ آئین میں ایک نقطے کا اضافہ کرنے کے لیے بھی آپ کو آئینی ترمیم کا عمل دہرانا پڑتا ہے۔