عمران آرمی چیف کو توسیع دینگے یا کوئی مس ایڈونچر کریں گے؟

نومبر 2022 میں اپنی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع مکمل کرنے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوبارہ توسیع کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے حالانکہ فوجی ترجمان نے اسے محض قیاس آرائیاں قرار دیا ہے اور وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی واضح کیا ہے کہ ابھی نومبر بہت دور ہے اور دوبارہ توسیع فی الحال زیرِ غور نہیں۔ جہاں آرمی چیف کی توسیع بارے گفتگو ہو رہی ہے وہیں اسلام آباد میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ ہوسکتا ہے وزیراعظم نے نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان کئی ماہ پہلے کر دیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین سابق آئی ایس آئی چیف اور موجودہ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو نیا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں جو اپنی خصوصی صلاحیتوں کے بل پر نہ صرف انہیں اہنے اقتدار کی بقیہ مدت پوری کروانے میں مدد دیں گے بلکہ اگلے الیکشن میں دوبارہ حکومت دلوانے میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی چیف کی تقرری کے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پیدا ہونے والی دوریان اب ایک خلیج کی صورت اختیار کر چکی ہیں اور موجودہ حالات میں وزیراعظم نہیں چاہتے کہ وہ اپوزیشن کے ہاتھوں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے باہر ہوجائیں۔

یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے اپنے ترجمانوں کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ نوازشریف کو پاکستان واپس لا کر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان نے دراصل نام لیے بغیر سازش کا الزام موجودہ اسٹیبلشمنٹ پر عائد کیا تھا کیونکہ اس ملک میں حکومت وقت کے خلاف سازش اسٹیبلشمنٹ کے بغیر مکمل نہیں پاتی۔ تاہم جب ایک حالیہ بریفنگ میں فوجی ترجمان میجر جنرل افتخار بابر سے اس بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے ان باتوں کو محض قیاس آرائیاں قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

افتخار بابر نے آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے بھی یہی موقف اپنایا تھا اور اس حوالے سے کی جانے والی باتوں کو قیاس آرائیاں قرار دیا تھا۔ جنرل قمر باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ اس سے قبل 2019 کے آخر میں بھی موضوع بحث رہا تھا۔ جب عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو بنیاد بنا کر اُن کی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع کے احکامات جاری کیے تو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پہلے قانون سازی کا حکم دیا۔ یاد رہے جنرل باجوہ کو اپنی تین سالہ مدت مکمل کر کے 2019 میں ریٹائر ہونا تھا البتہ وزیرِ اعظم نے ان کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کا فیصلہ کیا۔ ان کی توسیع رواں سال نومبر میں ختم ہو رہی ہے لیکن اس سے دس ماہ پہلے ہی اس معاملے پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر بحث اس معاملے کو سیاسی بنا دے گی جو کہ ایک منظم ادارے کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ وزیراعظم آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ پہلے ہی اس معاملے کو متنازعہ بنا کر دراصل فوجی قیادت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس ترمیم کے ذریعے موجودہ حکومت نے وزیراعظم کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار دیا تھا اسی ترمیم یے ذریعے وزیر اعظم کو آرمی چیف کو قبل از وقت گھر بھیجنے کا اختیار بھی حاصل ہو چکا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آرمی چیف کا تقرر دنیا میں ایک معمول کا عمل ہوتا ہے اور پاکستان میں بھی اسے اسی انداز میں لیا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا میں ابھی سے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے بحث کا کوئی خاص جواز نہیں ہے۔لہٰذا وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ ابھی اس معاملے پر غور کا وقت نہیں آیا اور اس حوالے سے وزیرِ اعظم اپنی کابینہ سے مشاورت کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل نہیں ہے کیوں کہ فوج کی قیادت ایک مستقل عمل کے تحت چل رہی ہوتی ہے اور ایک آدمی کے آنے یا تبدیل ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی آہستہ آہستہ یہی طریقہ رائج ہونا چاہیے کہ آرمی چیف کا تقرر ایک معمول کا عمل ہو جیسے کہ بحریہ اور فضائیہ کے سربراہ کے تقرر پر کوئی بحث نہیں کی جاتی۔

دفاعی امور کے صحافی اور مبصر اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا تقرر کے حوالے سے بحث و مباحثہ اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کیوں کہ ماضی میں مدتِ ملازمت میں توسیع کی روایت قائم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحث اس وقت ہی ختم ہو سکتی ہے جب آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی روایت کو ختم کیا جائے گا۔ ان کے بقول اگر سیاسی قیادت سمجھتی ہے تو وہ مدت کی حد مستقل تین سال سے بڑھا کر چار سال کر دے مگر معیاد پوری ہونے کے بعد نئی تقرری عمل میں آنی چاہیے۔ اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کی جانب سے توسیع کی قائم کی گئی روایت کے سبب ایک غیر ضروری مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے سیاسی و عسکری قیادت کے مابین تعلقات پر بھی سوال اُٹھتے ہیں۔

افغان طالبان TTP کو اپنی سرزمین سے کیوں نہیں نکال رہے؟

آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں افواجِ پاکستان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ تمام قیاس آرائیوں پر مبنی باتیں ہیں اور اس پر بات نہیں کی جانی چاہیے۔ 5 جنوری کو پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ ایسی بے بنیاد قیاس آرائیوں پر غور نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی چیزوں کو ہوا دی جائے۔ اس کے ایک روز بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک صحافی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق ابھی غور نہیں کیا گیا۔ اعجاز حیدر سمجھتے ہیں کہ دفاعی ادارے کے سربراہ کے تقرر کے معاملے پر بحث سے یہ معاملہ سیاسی نوعیت کا بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح فوج جو کہ ایک منظم ادارہ ہے وہ سیاسی اور دیگر قیاس آرائیوں کی زد میں آ جائے گا جو کہ کسی صورت درست نہیں ہو گا۔

اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ جب حکومت میعاد کے قوانین سے صرف نظر کرتی ہے تو اس قسم کی روایت قائم ہو جاتی ہے اور پھر یہ مسئلہ بار بار کھڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سیاسی طور پر اٹھتا رہے گا اور قیاس آرائیاں ہوتی رہیں گی جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔ ان کے بقول اس عمل سے فوج کا ادارہ متنازع ہو جاتا ہے اور عالمی جریدوں میں اس موضوع پر خبریں لگنے سے بیرونی دنیا میں پاکستان کا تاثر خراب ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سارے عمل میں سیاسی ڈھانچے کی کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں اور اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قواعد و قوانین کی پابندی کی جائے اور اس قسم کی غیر ضروری الجھنوں میں نہ الجھا جائے۔​

بحث و مباحثے کے اس ماحول میں پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے بیان کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے ابھی نہیں سوچا کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو باوقار طریقہ اپناتے ہوئے ان قیاس آرائیوں کو ختم کر دینا چاہیے۔نسوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم جان میجر نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا کہ جب پردہ گر جائے تو یہ رخصت ہونے کا وقت ہوتا ہے۔ لیکن اعجاز حیدر کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کو قبل از وقت اعلان نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہ فوجی قواعد کے منافی عمل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سروس رولز میں ایسا کہیں نہیں لکھا کہ توسیع لینے یا نہ لینے کے بارے پہلے سے اعلان کیا جائے۔ لیکن ترین سوال یہ ہے کہ کیا آرمی چیف کو مزید توسیع دی جائے گی یا وقت سے پہلے گھر بھیج دیا جائے گا؟

Back to top button