کیا پاکستان امریکہ سے ایرانی گیس پائپ لائن کلئیر کروا لے گا؟

پاک ایران ادھورے گیس پائپ لائن منصوبے پر ایران کی عالمی ثالثی عدالت جانے کی دھمکی نے جہاں پاکستان کے توانائی کے بحران پر مزید توجہ مرکوز کی ہے وہیں بین الاقو امی امور کے ماہرین اسے اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں ایک اہم موقع کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ جس میں پاکستان جرمانے سے بچنے کے بہانے گیس پائپ لائن منصوبے بارے امریکہ سمیت یورپی ممالک سے استثنی لے سکتا ہے بلکہ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کر کے عوام کو ریلیف بھی پہنچا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ تقریباً پندرہ سال قبل دو ہمسایہ ملکوں میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایران نے اپنی سرزمین پر 2012 میں ہی 684 میل پائپ لائن بچھانے کا ڈھانچہ مکمل کر لیا تھا جبکہ پاکستان نے اپنے 485 میل کے حصے پر ابھی کام بھی شروع نہیں کیا ہے۔اندازہ ہے کہ توانائی کے ذخائر سے مالا مال لیکن امریکی اور مغربی پابندیوں سے نبرد آزما ایران اس پائپ لائن کے ذریعہ 24 کروڑ آبادی والے پاکستان کو روزانہ 750 ملین سے 1 بلین کیوبک فٹ تک قدرتی گیس فراہم کر سکتا ہے۔خبروں کے مطابق تہران نے اسلام آباد کو معاہدے کے طویل عرصہ سے التوا کا شکار ہونے پر پیرس کی عالمی ثالثی عدالت میں لے جانے کے ارادے سے متنبہ کیا ہے۔بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان پر اس منصوبے پر عمل درآمد نہ کرنے پر 18 ارب ڈالر تک کا جرمانہ عائد ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان کے وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے جرمانے کی اس رقم کے بارے میں رپورٹس کو مسترد کردیا ہے جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کے مطابق اس تنازعہ کے قابل عمل حل کے لیے اسلام آباد تہران کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔اسی دوران امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بار پھر ملکوں کو ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی لین دین کے معاملے پر پابندیوں کے بارے میں خبر دار کر دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی طرف سے پائپ لائن کے معاملے پر پس و پیش سے کام لینے کی وجوہات میں ایران کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں امریکی پابندیوں کے اطلاق کا خدشہ اور دباؤ ایک بڑی وجہ ہے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال میں جب پاکستان کی معیشت بیک وقت کئی گھمبیر مسائل کا شکار ہے اور اس کے توانائی کے اپنے ذخائر بھی کم ہوتے جارہے ہیں، اسلام آباد کے پاس ایران کی ثالثی کے انتباہ کے بعد کیا راہیں ہیں؟

ماہرین کے مطابق ایران کی جانب سے ثالثی عدالت میں جانے کی دھمکی کے بعد پاکستان کے مخصوص حالات میں جو آپشنز میسر ہیں ان میں ایک راہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان ایران سے اس معاملے پر بات چیت کرتا رہے ۔ لیکن اس راہ کا دار و مدار تہران پر ہوگا کہ وہ اسے کیسے دیکھتا ہے۔

دوسرا آپشن دشوار ہے جس میں پاکستان کو بہت سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی کہ وہ امریکہ سے تعلقات، مغرب کی طرف سے جاری تجارتی رعائتیں، اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور عوام کو در پیش مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیسے ایک درمیانی راہ نکالتا ہے۔تاہم ماہرین کے مطابق اس کے لیے پاکستان کو نہ صرف حالات کا نفع اور نقصان کے میزان پر جائزہ لینا ہوگا بلکہ بہت سی معاشی اصلاحات کرنا ہوں گی۔

"سوال صرف توانائی کا نہیں ہے، یہ سوال پاکستان کے لیے ایک بڑا سوال ہے، اور وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اس بحران کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرے گا یا نہیں۔”کیا پاکستان امریکہ سے استثنیٰ حاصل کر پائے گا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے التوا میں ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اس معاملے پر استثنیٰ حاصل کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی اور کسی مستقل حل کی بجائے توانائی کے عارضی حل تلاش کر تا رہا ہے ۔ ماہرین کے مطابق جب لوگ ایران سے تجارت کے لیے بھارت، روس اور چین کی مثال دیتے ہیں تو یہ بات ضرور سامنے رکھنی چاہیے کہ ان ملکوں کے اقتصادی حالات پاکستان سے کہیں بہتر ہیں اور وہ آزادا خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو انہیں نہیں لگتا کہ اس نے امریکہ کے ساتھ پائپ لائن منصوبے پر کوئی مربوط کوشش کی ہے۔ماہرین کے مطابق لگتا ہے کہ پاکستان اس معاملے پر اب بھی تذبذب کا شکار ہے، اور فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ اس مسئلے پر اسے واضح طور پر دو ٹوک انداز میں قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ اب تک پاکستان نے ایران گیس پائپ لائن پر جو پوزیشن لی ہے وہ وقت گزارنے کی ہے اور اب بھی وہ وقت خریدنے کی کوشش کرے گا۔”

Back to top button