لگژری آئٹمز پر پابندی سے کیا معیشت کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟َ

حکومت کی جانب سے تیزی سے بگڑتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر معاشی ایمرجنسی کی بنیاد پر غیر ملکی لگژری آئٹمز کی امپورٹ پر مکمل پابندی تو عائد کر دی گئی ہے لیکن اس سوال کا جواب آنا ابھی باقی ہے کہ کیا اس فیصلے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو پائیں گے۔

یاد رہے کہ حکومت نے ہنگامی معاشی منصوبے کے تحت 38 ’غیر ضروری لگژری اشیا‘ کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔
حکومت کی جانب سے لگژری آئٹمز کی امپورٹ پر پابندی لگانے کے فوراًبعد انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے اعتراضات اٹھا دیئے ہیں اور ڈبلیو ٹی او نے بھی اس کی مخالفت کر دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور آئی ایم ایف نے تجارتی پابندیوں کے اقدام کی مخالفت کی ہے جس سے تجارت کے نظام میں مسائل پیدا ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ شیڈولڈ مذاکرات سے قبل حکومت کی جانب سے بغیر مشاورت کے ایسے اقدامات کرنا درست نہیں۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے لگژری آئٹمز پر پابندی لگانے سے موبائل فونز کی درآمدات بند ہو جائے گی جس سے ان کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا اور نقصان نہ صرف دکانداروں بلکہ صارفین کو بھی ہو گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کے حالیہ اقدام سے گاڑیوں کی فروخت بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ پی ٹی اے کے مطابق مارچ 2021 تک پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد قریب 18 کروڑ تھی، قریب ڈھائی کروڑ موبائل فون مقامی سطح پر اسمبل کیے گئے تھے جبکہ ایک کروڑ فون درآمد کیے گئے تھے، موبائل فون کی درآمد پر پابندی سے نہ صرف دکانداروں بلکہ صارفین کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ڈالر کی قدر میں اضافے کے بعد بڑھتی قیمتیں مزید ان کی پہنچ سے دور ہو جائیں گی، معاشی ماہرین کے مطابق سی کے ڈی موبائلز پہلے ہی مارکیٹ میں 90 فیصد ہیں، یہ باقی مارکیٹ کو بھی کور کر لیں گے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہزاروں لوگوں نے کتے یا بلیاں پال رکھے ہیں اور وہ انھیں اپنے گھر کا ایک فرد ہی تصور کرتے ہیں، لیکن اب جانوروں کے پیکٹ والے فوڈ کی امپورٹ پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ شہریوں کے مطابق pets کا فوڈ لگژری آئیٹم کیسے ہو گیا؟ یہ تو ایک ضرورت ہے، لہٰذا اینیمل شیلٹر چلانے والے لوگوں نے بھی اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ اس پابندی کے بعد جانور رکھنے والے افراد خوراک کی ذخیرہ اندوزی کریں گے جس سے مزید قلت پیدا ہوگی یا متبادل کے طور پر مقامی کمپنیوں کی تیار کردہ خوراک استعمال کریں گے جس پر زیادہ تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا وہ جانوروں کے لیے واقعی فائدہ مند ہے یا نہیں۔

آٹو سیکٹر ماہرین کے مطابق کار انڈسٹری میں ان لگژری گاڑیوں کی امپورٹ پر بھی پابندی پر لگ گئی ہے جو پاکستان میں اسمبل نہیں ہو رہیں، آٹو انڈسٹری میں جو نئے پلیئرز آئے ہیں، انھوں نے ملک میں ہی اپنے کار اسمبلنگ پلانٹس لگائے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس پابندی کا ٹائم فریم کیا ہے؟ ایک سال یا ایک مہینہ، اس سے معیشت میں کیا بہتری آئے گی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ یہ کمپنیاں پہلے ہی پاکستان میں موجود ہیں، انکا کہنا ہے کہ ابھی تک پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بارہ سے تیرہ بلین تک ہے لیکن اگر آپ نان آئل کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بات کریں تو وہ صرف ایک بلین ڈالر کا ہے، اس کا مطلب ہے سب سے زیادہ بیلنس پیٹرولیم مصنوعات پیمنٹ کی وجہ سے ڈسٹرب ہو رہا ہے، اب اگر آپ اس پر پابندی لگاتے ہیں تو اس سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔

Back to top button