جے یو آئی کا تحریک انصاف سے اتحاد نہ کرنے کا حتمی فیصلہ

جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی قیادت نے حتمی طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کیساتھ نہ تو سیاسی اتحاد کرے گی اور نہ ہی ایسے کسی اتحاد میں شامل ہو گی جو پی ٹی آئی کے ایما پر بنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ جے یو آئی کی مرکزی قیادت نے مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت اپنی مجلس عمومی کے دو روزہ اجلاس میں کیا جو اتوار کو لاہور میں اختتام پذیر ہوا۔ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آزاد حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہے گی اور حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ جے یو ائی پارلیمنٹ میں زیر غور آنے والے معاملات کاجائزہ لیتی رہے گی اور ہر معاملے کی نوعیت کے حوالے سے بوقت ضرورت تحریک انصاف سے تعاون کرنے یا نہ کرنے کا تعین کرتی رہے گی۔

جمعیت علمائے اسلام کے اندرونی ذرائع کے مطابق مولانا کی قیادت میں مرکزی مجلس شوری نے اہم قومی معاملات پر جذباتیت کی بجائے عقلیت اور عملیت پسندی کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جے یو آئی نے تحریک انصاف کی بار بار کی پرزور درخواستوں پر رازداری کے ساتھ بعض وضاحتیں طلب کی تھیں جو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب طلب ہیں۔

جے یو آئی کی قیادت حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے ایک بڑا اور موثر اتحاد قائم کرنے کی خواہاں تھی جبکہ دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی، مولانا نے تحریک انصاف کے ساتھ وسیع تر سیاسی اتحاد کا ڈول اس لیے ڈال رکھا تھا تا کہ خفیہ طور۔پر جاری مذاکرات میں اس کی سودا کار حیثیت مستحکم ہو سکے ۔ یوں دراصل جے یو آئی ہم عصر سیاسی جماعتوں کا وزن اپنے پلڑے میں ڈال کر انہیں استعمال کرنے کے درپے تھی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کیساتھ ہاتھ ملانے کے عوض نہ صرف نئے اتحاد کی صدارت لینا چاہتے تھے بلکہ حتمی فیصلوں کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، وہ با اختیار رہنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خود بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک چلانے کیلئے جب پی ڈی ایم اتحاد تشکیل دیا گیا تو مولانا خود اس کے سربراہ بنے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں کوئی اتحاد اس لئے بھی ممکن نہیں کہ دونوں جماعتوں کا تعلق پختونخوا سے ہے۔ جے یو آئی کو پچھلے الیکشن میں سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف کے امیدواروں کے ہاتھوں اٹھانا پڑا۔ الیکشن 202 کے نتائج سامنے آنے کے بعد مولانا نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ دھاندلی تحریک انصاف کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے کی گئی، ایسے میں اگر مولانا اسی تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد کرتے ہیں تو ائندہ خیبر پختون خواہ کی سیاست میں وہ اپنے ووٹرز کا سامنا خرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

دوسری جانب مبصرین کے مطابق تحریک انصاف اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے شہباز شریف حکومت کے خلاف بڑا اپوزیشن الائنس بنانے کی کوشش میں ابھی تک ناکام رہنے کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ متھے بازی کی پالیسی بھی ہے۔ خان کا خیال ہے کہ وہ اپنی فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف پالیسی سے عسکری قیادت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں انہیں جیل سے رہائی مل جائے گی، تاہم انکی اس پالیسی کا الٹا اثر ہوا ہے اور 26 نومبر کے اسلام اباد احتجاج کی ناکامی کے بعد ان کی سٹریٹ پاور ختم ہو گئی، ایسے میں اب انکا جیل سے باہر آنے کا امکان مزید معدوم ہو گیا ہے۔

یاد رہے کہ 26 نومبر کے احتجاجی دھرنے کی ناکامی کے بعد سے عمران خان نے اپنی پارٹی قیادت کو اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دے کر حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک چلانے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے سب سے زیادہ زور مولانا فضل الرحمن کو اپنا ساتھی بنانے پر لگایا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے داخلی تضادات اور سیاسی مہارت کے فقدان نے ان کوشش کو ناکامی سے دوچار کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جمعیت علمائے اسلام سے مفاہمت کی کوششیں اس کی اپنی قیادت کے متضاد بیانات کی وجہ سے بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

Back to top button