کیا غیرقانونی افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت دیناممکن ہے؟

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے افغانستان کے دورے کے بعد دونوں ممالک کے مابین اختلافات کی جمی برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم اعلیٰ سطحی رابطوں کے سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ کیا دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں استحکام آنے کے بعد افغانوں کی ملک بدری کی جاری مہم میں کوئی نرمی یا افغان شہریوں کے قیام کی مدت میں مزید توسیع کر سکتا ہے؟ وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں افغان شہریوں کو کون کون سے آئینی حقوق حاصل ہیں؟ کیا افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت ملنا ممکن ہے؟
تاہم قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں افغان پناہ گزین کو ایک پیچیدہ قانونی صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے 1951 کے پناہ گزینوں کے حقوق بارے کنونشن کی توثیق نہیں کی اس لئے ملک میں پناہ گزینوں سے متعلق مخصوص قوانین موجود نہیں ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی تنظیم یو این ایچ سی آر کے تعاون سے پاکستان کے پاس افغان پناہ گزینوں کے لیے ایک نظام موجود ہے پاکستان میں پناہ گزینوں کے لیے موجود قانونی فریم ورک بڑی حد تک 1946 کے فارن ایکٹ پر مبنی ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت کوئی وجہ دیے بغیر کسی بھی ‘غیر ملکی’ کو پاکستان چھوڑنے پر پابند کر سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وقت لاکھوں افغانی مستقل پناہ کی تلاش میں پاکستان میں موجود ہیں ‘ان میں سے بہت سے طالبان حکومت کے خوف سے 2021 میں پناہ کے متلاشی کے طور پر پاکستان آئے تھے۔ انھیں ٹوکن دیے گئے لیکن پاکستانی قانون میں ان ٹوکن کی کوئی اہمیت نہیں۔’کچھ افغان ایسے بھی ہیں جو کسی تیسرے ملک کے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھیں پہلے ستمبر تک پاکستان میں رہنے کا وقت دیا گیا تھا لیکن حالیہ نوٹیفیکیشن کے مطابق انھیں اپریل تک پاکستان چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔قانونی ماہرین کے بقول ‘بہت سے افغان میڈیکل ویزوں پر پاکستان آتے ہیں۔ وہ اکثر یہاں ٹرانزٹ کے طور پر رکتے ہیں، اس امید میں کہ ان کو یہاں سے کسی اور ملک کا ویزا مل جائے گا، لیکن انھیں اکثر غلط ویزے پر آنے کی بنیاد پر واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔’
تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں افغان شہریوں کو کوئی آئینی تحفظ حاصل ہے؟قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کا قانون کسی فرد کے ریاست کے ساتھ تعلق کی صرف دو اقسام کو تسلیم کرتا ہے: پاکستانی اور غیر ملکی شہری۔ اس میں پناہ گزینوں کے لیے قانونی تحفظ کا فریم ورک موجود نہیں ہے جبکہ اگر یہاں کسی فرد کے پاس کسی ملک کی شہریت نہ ہو تو اس کے لیے بھی کوئی قانون نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان کافی عرصے سے افغان پناہ گزین کے سب سے بڑے میزبانوں میں شامل ہے۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں آئین پاکستان کے آرٹیکل نو کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ‘کسی بھی شخص کو قانون کے مطابق زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔۔۔ آرٹیکل 9 تمام افراد پر لاگو ہوتا ہے جس میں پاکستان میں غیر ملکی (بشمول پناہ گزین) شامل ہیں۔ اس لیے یہ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے بحیثیت فرد، بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔’
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کا سیکشن چار کہتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص خود بخود پیدائشی طور پر پاکستانی شہری بن جاتا ہے۔ لیکن اس کا اطلاق غیر ملکی سفارت کاروں یا ‘غیر ملکی دشمن’ پر نہیں ہوتا۔ایچ آر سی پی کے مطابق اس شق کی وضاحت کے باوجود پاکستانی عدالتوں نے اس کی تشریح کے طریقہ کار میں تضاد پایا ہے خاص طور پر پناہ گزین کے کیسز میں۔ان کے مطابق پناہ گزین یا خاص طور پر افغان پناہ گزین کو پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کے سیکشن 4 کے ذریعے پیدائشی شہریت حاصل کرنے سے روکنے کی کوئی واضح قانونی بنیاد نہیں ہے۔ ‘جہاں تک اینیمی ایلیئنز کا تعلق ہے آج تک کسی بھی قانونی یا پالیسی دستاویز نے افغان پناہ گزینوں کو غیر ملکی دشمن قرار نہیں دیا ہے۔’
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستانیوں سے شادی کرنے والے افغان شہری عام طور پر پاکستان اوریجن کارڈ حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں جو انھیں کچھ حقوق اور مراعات دیتے ہیں لیکن مکمل شہریت نہیں دیتے۔اس طرح انھیں پاکستان میں رہنے، کام کرنے اور دیگر حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ ووٹ دینے، پاکستانی پاسپورٹ رکھنے یا الیکشن لڑنے کے اہل نہیں۔ تاہم یہ قانون صرف پاکستانی مردوں سے شادی کرنے والی افغان خواتین پر لاگو ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے غیر ملکی افراد کو پی او سی کارڈ نہیں مل سکتا۔