پاکستان میں KFC کے بائیکاٹ کے پیچھے کون سے بزنس مین چھپے ہیں؟

پاکستان میں امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کی پرتشدد بائیکاٹ مہم کے پیچھے وہ شاطر پاکستانی بزنس مین چھپے ہیں جو اوپن مارکیٹ میں تو ان برانڈز کا مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا بائیکاٹ کی مہم کے ذریعے میدان خالی کروا کے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان ساہوکاروں کی کوشش ہے کہ فلسطینیوں پر مظالم کی آڑ میں پاکستانی عوام کا جذباتی استحصال تیز کیا جائے اور انہیں پسے ہوئے جھاڑو سے تیار کردہ زیرہ، کیمیکل سے بنایا گیا دودھ اور دیگر جعلی مصنوعات استعمال کرنے پر قائل کیا جائے۔ سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ یہ لوگ جس موبائل فون ،ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کے ذریعے اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں، یہ سب اشیاء بھی کافروں کی ہی بنائی ہوئی ہیں۔ مختصر یہ کہ اگر آپ بھیڑ چال کے ذریعے عقل کے بائیکاٹ پر بضد ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھیڑ چال کو اندھی تقلید کا مرض سمجھا جاتا یے۔ اس حوالے سے ایک غیر مصدقہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ترکی میں ایک بھیڑ نے پہاڑ سے نیچے گہری کھائی میں چھلانگ لگائی تو اس کے پیچھے سینکڑوں بھیڑوں نے کود کر جان دیدی۔ عام طور پر ایسا رویہ ان جانوروں میں دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ جھنڈ، ریوڑ، غول اور جتھے کی شکل میں رہتے ہیں اور سوچے سمجھے بغیر ایک ہی سمت میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں سفید چوہوں کی ایک قسم میں اجتماعی خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بھیڑ چال کے تحت یہ چوہے پانی میں ڈوب کر مر جاتے ہیں۔

بلال غوری کے مطابق مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ نجانے کب انسانوں نے ریوڑ کی یہ نفسیات مستعار لی لیکن پاکستان میں بھیڑ چال بہت مقبول ہے۔ ایک زمانے میں کمپیوٹر کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر گلی محلے میں کمپیوٹر کے مراکز کھل گئے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہونے کے بعد صحافت کا بازار گرم ہوا تو تمام یونیورسٹیوں میں شعبہ ابلاغیات خودرو جھاڑیوں کی طرح اُگنا شروع ہوگئے۔ڈیجیٹل میڈیا کا دور آیا تو سب نے یوٹیوب چینل کھول لئے۔ یہ بھیڑ چال یہیں تک محدود نہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کسی ٹی وی چینل پر بچوں کے اغوا کی خبر چل جائے تو چند ہفتوں تک میڈیا ایسی ہی خبریں ڈھونڈ کر ایسا ماحول بنا دیتا ہے جیسے اس نوعیت کی وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ کوئی نوسرباز سوشل میڈیا پر یہ کہہ دے کہ تربوز کو انجکشن لگا کر سرخ کیا جاتا ہے تو عوام کوئی تحقیق کئے بغیر اسکے بائیکاٹ کی مہم چلا دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین ایسی باتوں کو جانچنے کے بجائے شیئر کرنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بائیکاٹ کا ماحول بن جاتا ہے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ اسی بھیڑ چال کے تحت آج کل پاکستان میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ عروج پر ہے۔شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ کے ایف سی نامی فاسٹ فوڈ چین جس پر پاکستان بھر میں حملے ہو رہے ہیں، اسکی شاخیں فلسطینی کے کئی علاقوں میں اب بھی کام کر رہی ہیں۔ آپ ابھی گوگل میں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کا نام لکھ کر سرچ کریں تو پتہ چلے گا مغربی کنارے کے شہر رمالہ میں اس کی ایک شاخ اب بھی کھلی ہے اور فلسطینی وہاں سے نہ صرف برگر خرید کر کھا رہے ہیں بلکہ پیپسی اور کولا نامی ان کالے مشروبات سے بھی جی بہلا رہے ہیں جنہیں پاکستان میں حرام قرار دیا جاچکا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی فلسطینی شہروں میں بھی کے ایف سی کی چین پر فرائیڈ چکن سمیت سب کچھ دستیاب ہے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ دراصل یہ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ملکیت نہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کاروبار کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہ بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں اپنی شاخ کھولنے کی اجازت دیتے وقت ہی یکمشت تما۔ رقم وصول کر لیتی ہیں۔ بعد میں یہ کمپنیاں محض معمولی شرح سے منافع میں حصہ وصول کرتی ہیں، یعنی آپ کے ایف سی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ذریعے پاکستانی سرمایہ کاروں اور ان کے ہاں کام کرنے والے ملازمین کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔اس ضمن میں کسی نے تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی کہ جن مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے کیا وہ واقعی اسرائیلی برانڈز ہیں؟ چلیں بالفرض محال یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ ان بڑی کمپنیوں کے مالکان یہودی ہیں تو کیا ان کے ہاں ہماری طرح فرقہ بندی نہیں ہے؟ کٹر مذہبی یہودی جو صہیونی کہلاتے ہیں وہ ہمارے تکفیریوں کی طرح اسرائیلی حکومت کو نہیں مانتے۔ بے شمار یہودی فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں تو کیا بائیکاٹ سے پہلے ان تمام پہلوؤں پر غور کیا گیا؟

بلال غوری کہتے ہیں کہ دراصل کے ایف سی اور دیگر بین الاقوامی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم کے پیچھے شاطر پاکستانی بزنس مین موجود ہیں  جو کھلی مارکیٹ میں تو ان برانڈز کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر بائیکاٹ کے ذریعے میدان خالی کر کے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔

Back to top button