ٹک ٹاک پر پابندی لگنے کے بعد چینی حکومت پاکستان سے ناراض


پاکستان میں چائنیز سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرنے پر چین کی حکومت پاکستان سے سخت ناراض ہوگئی یے جس کی وجہ سے پاک چائنہ دوستی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے معروف سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو غیر غیر اخلاقی مواد کو فروغ دینے کا الزام لگا کر حال ہی میں پابندی عائد کردی تھی جس کا چین کی حکومت نے سخت برا منایا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایسی ہی پابندی پہلے چین کے دو دشمن ممالک امریکہ اور بھارت نے عائد کی تھی اور پاکستان بھی اب ٹک ٹاک پر پابندی لگا کر انہیں دشمن ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی اور غیر مہذب مواد کی موجودگی کی شکایات کی تھیں جس کے بعد ایپ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس نے پابندی سے پہلے ٹک ٹاک انتظامیہ کے ساتھ اپنے تحفظات شیئر کیے گئے تھے اور انہیں پی ٹی اے کی ہدایات پر عمل کے لیے مناسب وقت بھی دیا گیا تھا تاہم ٹک ٹاک انتظامیہ ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہی جس کے بعد یہ قدم حکومت کی منظوری سے اٹھایا گیا۔ پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس نے ٹک ٹاک انتظامیہ کو اس بات سے آگاہ کردیا ہے کہ اگر وہ آنے والے دنوں میں ریگولیٹر کی ہدایات کے مطابق غیر اخلاقی مواد کو روکنے کا مثر مکینزم تیار کرلیتا ہے تو پابندی کے فیصلے پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔تاہم ٹک ٹاک پر اس حکومتی پابندی کے بعد سے پاکستان اور چائنہ کے مابین تعلقات تیزی سے خراب ہوتے نظر آتے ہیں اور چین کی حکومت نے پاکستان سے اپنی ناراضی کا کھلے لفظوں میں اظہار کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ ٹک ٹاک ایک چینی کمپنی کی ملکیت ہے۔ امریکہ اور انڈیا کا الزام ہے کہ چین اس ایپ کو جاسوسی کے لیے استعمال کرتا ہے اس لیے انھوں نے اس پر بین لگا دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان نے اس پر اصل میں کش وجہ سے پابندی لگائی؟ کیا پاکستان بھی چین خے معاملے پر امریکہ اور انڈیا کا ہم خیال ہو چکا ہے اور سمجھتا ہے کہ ٹک ٹوک جاسوسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے؟یاد رہے کہ رواں برس جون میں انڈیا نے اور اگست میں امریکہ نے چائنیز ایپ ٹک ٹاک بین کیا، جس کی بنیادی وجہ سیاسی اور سفارتی تعلقات تھے لیکن الزام جاسوسی کا لگایا گیا تھالیکن پاکستان نے اس ایپ کو فحاشی پھیلا ے کا الزام لگا کر بند کیا ہے۔
رواں سال اگست میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کے ساتھ کسی قسم کی لین دین پر پابندی لگائی گئی تھی۔اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو قومی سلامتی کے پیشِ نظر ٹک ٹاک کے مالکان کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنا ہوگی۔ دوسری طرف ٹک ٹاک ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اس کے ڈیٹا پر چینی حکومت کا کنٹرول ہے یا اس تک چینی حکومت کو رسائی حاصل ہے۔ ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ تقریباً ایک سال تک مذاکرات کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں اپنایا گیا اور ان کا سامنا ایک ایسی انتظامیہ سے ہوا جو ‘حقائق کو چنداں توجہ’ نہیں دیتی۔
اس کے علاوہ جولائی میں انڈین حکومت نے ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ چین کے ساتھ لداخ کے سرحدی علاقے میں کشیدگی کے دوران انڈین حکومت نے اس فیصلے کو ایمرجنسی حل اور قومی سلامتی کے لیے ضروری قدم بتایا تھا۔ انڈیا کے وزیر اطلاعات اور نشریات روی شنکر پرساد نے اس وقت اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ‘یہ پابندی سکیورٹی، خود مختاری اور سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ ہم انڈین شہریوں کے ڈیٹا اور پرائیویسی میں کسی طرح کی جاسوسی نہیں چاہتے ہیں۔’
لیکن پاکستان کی جانب سے بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کیے جانے کے فیصلے کو چین کی حکومت نے غیر منصفانہ قرار دیا ہے خصوصا جب وہ پاکستان کو اپنا بہترین دوست سمجھتا ہے۔ اس سے پہلے بھی چین نے پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو سی پیک کے پراجیلٹ میں شامل کیے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان  کی حکومت کی طرف سے سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کرنے کا اعلان کئے جانے کے بعد ایک چینی اخبار نے اپنے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ حکومت پاکستان کے اس قدام کے باعث پاک چین دوستی  ہی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ معروف چینی اخبار چائنہ مارننگ پوسٹ نے اپنے آرٹیکل میں کہا تھا کہ چین کے خیال میں پاکستان سی پیک کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ قربتیں بڑھا کر چین کو غصے میں لانے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔ چین واضح کر  چکا ہے کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور خالصتاً معاشی پروگرام ہے، جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے ، لیکن پاکستان کی طرف سے بیانات جاری ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب بھی سی پیک کا اسٹریٹجک پارٹنر بننے جا رہا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو میمو موصول نہیں ہوا۔ محض دو ہفتوں  کے دوران اس نے 2 اہم فیصلے کئے ہیں۔ سی پیک پر 2030 تک 62 ارب ڈالر خرچ کئے جانے تھے لیکن عمران خان انتظامیہ نے اس کا حجم کم کر کے 5 ارب ڈالر کر دیا ، جس کے نتیجے میں بیجنگ سے گوادر تک جانے والے مغربی روٹ کے لئے فنڈز کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔  اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت سی پیک کے تحت ریلوے نیٹ ورک کے منصوبوں کا حجم بھی کم کرنے پر غور کر رہی ہے جو کہ معاہدے کے مطابق 8 ارب ڈالر  ہے اور حکومتی وزراء کے بیانات کے مطابق اسے 4 ارب ڈالر تک کم کر دیا جائے گا۔آرٹیکل میں مزید لکھا گیا کہ ایسے فیصلوں سے یہ تائثر اور مضبوط ہو گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت اپنے ‘فولادی بھائی’ کے ساتھ کلّی طور پر ایماندار اور مخلص نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button