آئینی ترمیمی پیکج اکتوبر کے پہلے ہفتے میں منظور کروانے کا فیصلہ
وفاقی حکومت نے آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل کا فیصلہ اپنے حق میں آنے کی صورت میں عدالتی اصلاحات پر مبنی آئینی ترامیم کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انجام تک پہنچانے کا عندیہ دے دیا ہے، جس کیلئے دونوں ایوانوں کے اجلاس آئندہ ہفتے بلانے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔
خیال رہے کہ مئی 2022ء میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرھ ہوئے سپریم کورٹ کے تب کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بنچ نے قرار دیا تھا کہ منخرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ اس فیصلے سے وزیراعلی حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہو گئی تھی اور پرویز الہی وزیراعلی بن گئے تھے۔ تب اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ منحرف اراکین کی نا اہلی کی صورت میں ان کا ووٹ لازمی شمار کیا جاتا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر ہوئی تھی جسے دو سال گزر جانے کے باوجود سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ اب اس کیس کی سماعت 30 ستمبر کو ہونے جا رہی ہے۔حکومت کو امید ہے کہ نظر ثانی اپیل منظور ہو جائے گی اور منحرف اراکین کہ ووٹ شمار کرنے کا فیصلہ آ جائے گا۔ یوں اگر آئینی ترامیم پاس کروانے کے لیے اگر کسی دوسری جماعت کا رکن حکومت کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو وہ نااہل تو ہو جائے گا لیکن اس کا ووٹ شمار ہو جائے گا اور یوں حکومت دو تہائی اکثریت سے ترامیم پاس کروا لے گی۔ حکومتی منصوبے کے مطابق ائینی ترامیم پاس ہونے کے بعد نااہل ہونے والے اراکین کو سینٹ اور قومی اسمبلیوں الیکشن کے ذریعے دوبارہ منتخب کروا لیا جائے گا۔
ذرائع کا دعوی ہے کہ حکومت نے عدالتی اصلاحات پر مبنی آئینی ترامیم پر غور کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آئندہ ہفتے طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم اجلاسوں کے حتمی شیڈول کا تعین آئین کی دفعہ 63 اے کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں کیا جائے گا چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بینچ اس عدالتی فیصلے پر نظرثانی کررہا ہے جس میں عدالت نے مبینہ طور پر 2022ء میں اس آئینی دفعہ میں تحریف کرکے آئین کو از خود تحریر کرڈالا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف جنہیں پہلے سے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپس آنا تھا اب یکم اکتوبر تک وطن واپس آجائیں گے۔ ذرائع کےے مطابق حکومت آئینی ترامیم کی منظوری کو اکتوبر کے پہلے ہفتے سے آگے لے جانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے قبل اس قضیے کو نمٹانے کیلئے کوشاں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں حکمراں جماعت ن لیگ اور اس کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں مولانا کے عین وقت پر پینترا بدلنے کی وجہ سے گذشتہ ہفتے آئینی ترمیم منظور کرانے میں بظاہر ناکام رہیں جس کے بعد چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اس ترمیم کو پاس کروانے کے لیے نون لیگ سے زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے ن لیگ کو ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹا کر اسٹئیرنگ وہیل خود سنبھال لیا ہے۔
بدھ کو سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں بلاول بھٹو نے واضح کیا تھا کہ ’ہم اس ترمیم کو پاس کروا کر ہی رہیں گے۔‘صرف یہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان نے بھی اسی دن شام کو صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ’ہم نئی آئینی عدالت کے حق میں ہیں۔ صرف ہمارا اعتراض ہے کہ قانون سازی کسی فرد واحد کی خوشی کے لئے نہ ہو۔ تاہم ضرورت کے لیے ہونے والی قانون سازی میں کوئی حرج نہیں۔‘
خیال رہے کہ اس ترمیم کو متعارف کروانے والی ن لیگ اس وقت منظرنامے سے غائب ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ان دنوں امریکہ میں ہیں جبکہ دیگر وزرا بھی محاذ پر ڈٹے دکھائی نہیں دے رہے۔البتہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے حالیہ بیانات سے تاثر مل رہا ہے کہ اب بھی اس ترمیم کو پاس کروانے کے لیے سیاسی قوتیں متحرک ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ’یہ تاثر نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ یہ ترمیم پاس کرنے کے لیے اب راؤنڈ ٹو کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مرتبہ اس میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہو گا اور اس حوالے سے اکتوبر کا پہلا ہفتہ اہم ہے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ بظاہر اس ترمیم کے لیے حکمراں جماعت کے بجائے بلاول بھٹو کیوں زیادہ متحرک ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تو ترمیم کے خدوخال سامنے لے آئے ہیں اس پر جو اعتراض کیے گئے اور ایک سیاسی تفہیم پیدا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ سیاسی عمل ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘حکومت اب بھی پوری طرح کوشش کر رہی ہے کہ کسی طریقے سے مکمل اتفاق رائے سے اس ترمیم کو پاس کروایا جائے۔‘
نظام کے خلاف سازش کرنے والوں کو پوری طاقت سے کچلنے کا فیصلہ
سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’پیپلزپارٹی متفقہ آئین لانے سے لے کر 18ویں ترمیم اور اب 27 ویں ترمیم لانے کے اپنے اعزاز کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وقتی طور پر بھلے اس میں حکمراں جماعت کا فائدہ ہو لیکن پاکستان کے طاقت کے مراکز میں ٹھہراؤ لانے کے لیے یہ ایک طویل مدتی بندوبست ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں زیادہ تر شقیں تو پیپلزپارٹی پہلے ہی اٹھارویں ترمیم کے وقت لے کر آئی تھی جنہیں نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں بلاول کا زیادہ متحرک ہونا ایک قدرتی سی بات لگتی ہے۔‘