آرمی چیف نے عمران خان کے کون سے فیصلے کی مخالفت کی؟

وزیراعظم عمران خان نے تحریک لبیک کے احتجاجی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا حکم دے دیا تھا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی جس کے بعد معاملات کو مذاکرات اور معاہدے کی طرف لے جایا گیا۔ معروف انگریزی اخبار ڈان نے ایک خصوصی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ٹی ایل پی کے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔ جب یہ اجازت مل گئی تو فوجی قیادت نے آپریشنل پہلوؤں اور ہجوم کے خلاف طاقت کے استعمال کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا اور حساب کتاب لگایا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کاکیا ردعمل ہوگا اور اگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے منتشر ہونے سے انکار کرنے والوں پر گولی چلا دیتے ہیں تو کتنا جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ جنرل باجوہ کی زیر کمان فوجی قیادت نے اس جائزے میں ممکنہ ہلاکتوں کے ردِعمل پر بھی بحث کی۔ بالآخر 29 اکتوبر کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹی ایل پی کے خلاف طاقت کے استعمال کے مضمرات اور فوائد سامنے رکھے۔ اجلاس میں شریک افراد نے اس بات کی تصدیق کی کہ آرمی چیف نے کہا تھا کہ اگر فیصلہ ساز ٹی ایل پی کے خلاف طاقت کے استعمال کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں تو فوج ان کے حکم پر عمل کرے گی۔ تاہم ساتھ ہی شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے گزشتہ واقعات، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد کا حوالہ دیا گیا اور اجلاس کے شرکا کو دونوں واقعات کے نتائج یاد کرائے گئے۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے پہلے ہی وزیر اعظم عمران خان سخت رویہ اپناتے ہوئے تحریک لبیک کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کر چکے تھے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس میں کہا ہے کہ حکومت کسی کو قانون ہاتھ میں لینے اور ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گی اور اب لبیک کے ساتھ ایک عسکریت پسند تنظیم کے طور پر نمٹا جائے گا چونکہ اس کے بھارت سے روابط ہیں۔
تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف نے وزیراعظم کو طاقت استعمال کرنے کے خلاف مشورہ دیا اور کہا کہ یہ کوئی حل نہیں ہے اور اگر حکومت ایسا کرنا چاہتی ہے تو پھر رد عمل کے نتائج کی بھی ذمہ داری لے۔ذرائع نے کہا کہ اس کے بعد ‘خونریزی سے بچنے’ کے لیے مذاکراتی تصفیہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر مفتی منیب الرحمٰن کو تصفیہ کار کے طور پر شامل کیا گیا، چنانچہ انہیں کراچی سے لایا گیا اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
لہذا سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر آرمی چیف عمران خان کے فیصلے کی مخالفت نہ کرتے تو معاہدے کا کوئی امکان نہیں تھا اور نہ ہی اس تنظیم سے پابندی ہٹ سکتی تھی۔ تحریک لبیک سے مذاکرات میں شامل سینیئر حکام کو یقین ہے کہ معاہدہ ‘بالکل ریاست کے حق میں’ ہے اور یہ کہ ٹی ایل پی کے پاس دوبارہ پرتشدد مظاہروں کی طرف لوٹنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔
دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے دوران سیاسی قیادت کو آن بورڈ لینے کے بعد حکومت نے اصولی طور پر ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ جب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا اسے تب تک خفیہ رکھنا ایک مجبوری تھی۔ بریفنگ کے شرکا کے مطابق سینئر فوجی حکام نے انہیں آگاہ کیا کہ یہ معاہدہ کس طرح ہوا اور اسے اتنے عرصے تک خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ ان کے مطابق اس کا بنیادی مقصد ٹی ایل پی کے مظاہرین کو سڑکوں سے ہٹانا تھا تاکہ صورتحال معمول پر آسکے۔
اس تناظر میں اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ ابتدا میں ہی معاہدے کی تفصیلات سامنے آنے سے ایک عوامی بحث جنم لے سکتی ہے جس سے اس کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی تھی جو کہ احتجاج ختم کرنے سے منسلک تھا۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اب جبکہ ٹی ایل پی نے احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پورا معاہدہ جلد منظرِ عام پر لایا جائے گا۔ تاہم معاہدہ طے پانے سے قبل یہ معاملہ نازک تھا کہ ان مظاہرین سے کس طرح نمٹا جائے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے راستے میں کھڑی کی گئی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے تھے۔
بتایا جا رہا ہے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کی تفصیل آئندہ 10 روز میں سامنے آنے کی توقع ہے جس سے ممکنہ طور پر ایک بحث شروع ہوجائے گی جس میں اس بات کا جائزہ شامل ہو سکتا ہے کہ حکومت کو دستیاب مشکل آپشنز کی روشنی میں فیصلے کس طرح کیے گئے، تبدیل کیے گئے اور آخر کار ان پر عمل درآمد کیا گیا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے فورا بعد معاہدے کو پبلک کر دیا جائے گا۔