اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بھی غداری کے الزام سے بچ نہیں پائے گا

اپنے مخالف سیاسی قائدین پر غداری کے مقدمات درج کروانے والے وزیراعظم عمران خان کو تاریخ کا یہ سبق اور مکافات عمل کا یہ قانون نہیں بھولنا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر جس بھی سیاستدان نے دوسروں پر غداری کے الزامات لگائے، آنے والے وقت میں وہ خود بھی انہی الزامات کا شکار بنا۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینئر تجزیہ نگار اور صحافی سلیم صافی اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ میرا تو ایمان ہے کہ ایک نہ ایک دن عمران خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو اس وقت نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے۔
سلیم صافی کا کہنا ہے کہ جب بلوچ قوم پرست یعنی میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری وغیرہ ’’غدار‘‘ تھے تو تب نواب اکبر بگٹی محبِ وطن تھے۔ پہلے وزیر مملکت، پھر گورنر اور پھر وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے سندھ کے ’’غدار‘‘ ذوالفقار علی بھٹو سے نمٹنے کی خاطر بزنجو، مینگل اور مری کو تاحکم ثانی محب وطن ڈکلیئر کیا لیکن 1999کے بعد جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہوں نے نواب اکبر بگٹی کو بھی ’’غدار‘‘ ڈکلیئر کیا۔
پختونوں کے لیڈر خان عبدالغفار خان اور خان عبدالولی خان اور ان کے اجمل خٹک جیسے ساتھی روز اول سے ’’غدار‘‘ تھے لیکن جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں مختصر وقت کے لئے انہیں محب وطن ڈکلیئر کیا گیا تاہم ان کے اقتدار کے آخری ایام تک ان کی حیثیت پھر بھی مشکوک رہی۔ وہ پورے محب وطن تب ڈکلیئر ہوئے جب جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ وہ نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوئے۔
اجمل خٹک نے چونکہ کابل میں جلاوطنی کاٹی تھی اور شاعر کی حیثیت سے پختونستان کے گن بھی بہت گائے تھے، اس لئے وہ خصوصی ’’غدار‘‘ تھے تاہم جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جس سیاسی لیڈر کو سب سے پہلے شرفِ ملاقات سے نوازا، وہ اجمل خٹک ہی تھے۔ پھر جب عوامی نیشنل پارٹی طالبان کے مقابلے پر اُتر آئی اور دوسری جماعتوں کے لیڈروں سے زیادہ پاکستان کی خاطر اپنے سینے چھلنی کروائے تو ان کی حب الوطنی پر یقین ہونے لگا۔ لیکن جب سے اے این پی اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے عمران خان کی مخالف صف میں کھڑی ہے تب سے اس کے قائدین کی حب الوطنی پر پھر سوال اُٹھائے جارہے ہیں۔ البتہ اب اُن کے حصے کے ’’غداری‘‘ کے سرٹیفکیٹ پی ٹی ایم کے پختونوں کو مل رہے ہیں۔
سندھی قوم پرست جی ایم سید نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد کئی دہائیوں تک ’’غدار‘‘ رکھنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے انہیں ایک ذاتی ملاقات میں گلدستہ پیش کرتے ہوئے عارضی طور پر محب وطن ڈکلیئر کیا کیونکہ تب ان کی پوری توجہ سندھی ذوالفقار علی بھٹو کو ’’غدار‘‘ ثابت کرنے پر تھی۔ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تو پھر ان کی بیٹی بےنظیر بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو ’’غدار‘‘ ثابت کیا جاتا رہا اور اس مقصد کے لئے میاں نواز شریف اور جماعت اسلامی کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اسی کی دہائی تک تین قومیتیں پنجابی، اردو بولنے والے اور کشمیری ’’غداری‘‘ سے بچے ہوئے تھے۔
کشمیریوں کی تو خیر الگ حیثیت تھی لیکن ’’غدار‘‘ سندھی بےنظیر بھٹو کے مقابلے میں کراچی کے اندر الطاف حسین کی قیادت میں اردو بولنے والوں کو جبکہ پنجاب میں نواز شریف کو پروان چرھایا گیا۔ الطاف حسین کی جماعت کی نے سیاست میں تشدد کو عام کیا لیکن پھر بھی جنرل پرویز مشرف نے اُن کی بھرپور سرپرستی کی اور یوں وہ حد سے آگے بڑھنے لگے، چنانچہ جنرل راحیل شریف کے دور میں ان کو بھی غدار ڈکلیئر کیا گیا۔ یوں الطاف حسین وغیرہ کے ذریعے مہاجروں کی ’’غداری‘‘ کا کوٹہ بھی پورا ہو گیا۔
اس کے بعد پنجاب باقی بچا تھا لیکن اب نواز شریف کو باقاعدہ ’’غدار‘‘ بنانے کی کوششوں کا عملی آغاز کردیا گیا ہے اور ان سمیت پنجاب سے تعلق رکھنے والے درجنوں لیگی رہنمائوں کے خلاف ’’غداری‘‘ کے مقدمات قائم کردیے گئے۔ یوں پنجاب کو بھی اپنے حصے کی ’’غداری‘‘ کا کوٹہ مل گیا۔ البتہ سونامی سرکار نے حد یوں کردی کہ آزاد جموں و کشمیر کے منتخب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کے خلاف بھی پنجاب کے ایک تھانے میں غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سندھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ حد تو یہ ہوئی کہ کہ غداری کے سرٹیفیکیٹ بنانے والوں کی اپنی فیکٹری سے تعلق رکھنے والے تین سابق افسران کو بھی اسی ایف آئی آر میں غدار ڈکلئیر کر دیا گیا جس میں نواز شریف اور ان کے دیگر ساتھیوں کا نام ڈالا گیا تھا۔
سلیم صافی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ جب اس ملک میں ہر طرف ’’غدار‘‘ ہی ’’غدار‘‘ ہیں اور کوئی پتا نہیں کہ جو چند ایک آج محب وطن ہیں، کل ان کو بھی ’’غدار‘‘ ڈکلیئر کردیا جائے تو پھر کیوں نہ اس ملک کا نام تبدیل کر کے پاکستان کے وزن پر کچھ اور رکھ دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پولیس، عدالتوں اور میڈیا کا سارا وقت غداری اور حب الوطنی کے فیصلوں کی مشق میں ضائع ہورہا ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ عمران خان، وزیر قانون فروغ نسیم کے ذریعے قانون بنا کر آرڈیننس جاری کردیں کہ عمران خان، فروغ نسیم اور زلفی بخاری وغیرہ کے سوا اس ملک کے باقی سب سویلینز غدار ہیں۔
بہتر ہوگا کہ ایک قانون اور بنا دیا جائے کہ جس میں عمران خان کی طرف سے ہندوستان، برطانیہ اور پاکستان کے اندر فوج اور اسکی ایجنسیوں کے خلاف کی گئی تقاریر اور انٹرویوز کو دیکھنا یا دکھانا بھی غداری قرار دیا جائے۔ اگر یہ دوسرا قانون نہ بنایا گیا تو سونامی دور کے معیارات اور پیمانوں کے مطابق جلد یا بدیر خود عمران خان بھی ’’غدار‘‘ قرار پائیں گے۔ ویسے بھی تاریخ کا سبق اور مکافات عمل کا قانون بھی یہی ہے کہ مہرہ بن کر جس نے بھی دوسروں پر غداری کے الزامات لگائے، اگلے وقتوں میں وہ خود بھی غدار قرار پایا۔