چترال میں تربیت دینے والی خاتون فٹبالر

کوہِ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں واقع چترال میں ایک غریب آبائی علاقے کی ایک فٹبالر کرشمہ علی نے کرونا وائرس کو بھی اپنے خواب کی تکمیل میں رکاوٹ بننے نہیں دیا، ان کا خواب ہے کہ وہ اپنے علاقے کی غریب لڑکیوں کو فٹبال کی تربیت دے کر ان کا مستقبل بہتر بنائیں۔
بین الاقوامی فٹ بال ٹورنامنٹس میں ملک کی نمئندگی کرنے والی 23 سالہ کرشمہ علی کا کہنا تھا کہ وبا نے انہیں ان تمام مواقع کو اکثر لڑکوں کے لیے محفوظ کیے جاتے ہیں انہیں لڑکیوں کو فراہم کرنے کے لیے مزید ثابت قدم کیا ہے۔ اسلام آباد سے بذریعہ ٹیلی فون کرشمہ علی کا کہنا تھا کہ ‘لڑکے جو باہر جا سکتے اور کھیل سکتے ہیں، ان کے برعکس لڑکیاں کرونا کی وبا کے باعث اسکول بند ہونے سے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئیں ہیں‘. ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بہت سی لڑکیوں کو گھر کے مختلف کاموں میں مدد کرنی ہوتی ہے جس میں بالکل مزہ نہیں آتا’۔
کرشمہ علی نے 2 سال قبل 8 سے 16 سال کی عمر کی 60 لڑکیوں کے ہمراہ اونچائی پر واقع ایک اسپورٹس کلب کی شروعات کی اور آج 150 کے قریب لڑکیاں اس کا حصہ ہیں جو اسکی، کرکٹ اور فٹبال کھیل سکتی ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے ملک میں غربت اور صنفی امتیاز کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جہاں لڑکوں کو پروفیشنل کالجز میں اسپورٹس اسکالرشپ حاصل کرنے میں مدد کرکے ان کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان کے لیے یہ آسان نہیں تھا، ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ثقافتی اور روایات کے لحاظ سے نامناسب سمجھا جاتا تھا کیونکہ میں شارٹس پہنوں گی جس سے میری جلد واضح نظر آئے گی‘۔ انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال میں پچھلے سال اس وقت نرمی آئی جب انہیں فوربس میگزین نے انڈر 30 میں ابھرتے کھلاڑیوں اور اداکاروں کی ایشیا کی فہرست میں شامل کیا، اس فہرست میں ان کے ساتھ ٹینس چیمپیئن نومی اوساکا اور کے- پاپ بینڈ بلیک پنک بھی شامل تھے جس کے بعد برادری میں ان کی کامیابیوں کو سراہا جانے لگا، اگلے ماہ اسلام آباد میں 30 لڑکیوں کو پروفیشنل کوچز سے ایک ہفتے تک ٹریننگ دی جائے گی اور یہ ایک ’بڑا تعلیمی قدم’ ہوگا کیونکہ زیادہ تر نے کبھی اپنی برادریوں کو نہیں چھوڑا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا خواب ہے کہ وہ ایک دن قومی ٹیم کے لیے کھیلیں لیکن اس کے لیے انتظار کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں اس وقت کوئی خواتین کی فٹبال ٹیم موجود نہیں ہے، میں نے خود بہت جدوجہد کی ہے، میں نے اپنی طرف سے بہت محنت کی ہے لیکن مجھے یقین نہیں کہ کیا ملک کی اسپورٹس منیجمنٹ اس کے لیے اتنی ہی کوشش کرے گی۔