ریاستی ادارے کو بند نہیں ہونے دیں گے

چیف جسٹس گلزار احمد نے پی آئی اے نجکاری کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جعلی ڈگری رکھنے والے ملازمین کو ایک ایک کرکے نکالیں گے اور ریاستی ادارے کو بند نہیں ہونے دیں گے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نجکاری خسارہ کیس کی سماعت کے دوران قومی ایئرلائن کے وکیل نعیم بخاری، سابق معاون خصوصی شجاعت عظیم کے وکیل پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی جانب سے سخت ریمارکس سامنے آئے اور انہوں نے کہا کہ جعلی ڈگری کے مقدمات یہاں سنیں گے اور جعلی ڈگری رکھنے والے ملازمین کو ایک ایک کرکے نکالیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے ملازمین نے الخیر یونیورسٹی سے ڈگریاں لے رکھی ہیں، یہ یونیورسٹی تعلیمی اسناد فروخت کرتی ہے۔ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیے کہ جعلی ڈگری والے جہاز چلارہے ہیں، اس پر وکیل پی آئی اے نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے موجودہ ایم ڈی ارشد محمود کو کام سے روک دیا ہے، اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد محمود کے خلاف درخواست کو عدالت عظمیٰ نے پذیرائی نہیں دی تھی۔
خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔
بعد ازاں 9 جنوری 2020 کو پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئرمارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔سماعت کے دوران نعیم بخاری نے بتایا کہ پی آئی اے پر 426 ارب روپے کا قرض ہوگیا ہے، نئی انتظامیہ پی آئی اے کی بحالی اور خسارہ کم کرنے کے کوشاں ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے کی بساط نہیں تھی تو قرض کیوں لیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کی نجکاری کی خبریں اتنے بڑے قومی ادارے کے ساتھ مذاق ہے، نظریں پی آئی اے کی نجکاری پر نہیں بلکہ نیویارک پر ہے۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو ایئرلائن یا جہاز اڑانا نہیں آتا، کیا پی آئی اے کو ادارہ چلانا آتا ہے یا نہیں؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جہاز کے لیے 700 ملازم کام کرتے ہیں، اس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پی آئی اے کی بحالی کا یہ آخری موقع ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آخری موقع کیوں؟ پی آئی اے کیوں نہیں چل سکتی؟ ریاستی ادارے کو بند ہونے نہیں دیں گے۔