’’سٹیج سے فلموں تک کمال عروج حاصل کرنیوالے اداکار شکیل آفریدی‘‘

پاکستانی شوبز انڈسٹری کے لیجنڈری اداکار شکیل آفریدی نے باقاعدہ طور پر سٹیج سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کر کے فلم اور ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کے ایسے جوہر دکھائے کہ آج بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
فلم، اور ٹی وی کے نامور اداکار اور معروف ڈرامہ سیریل ‘ان کہی’، ‘آنگن ٹیڑھا’ اور ‘انکل عرفی’ میں اپنی لازوال اداکاری کی وجہ سے شہرت پانے والے اداکار شکیل 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ لیجنڈ ری اداکار کافی عرصے بیمار تھے اور ان کی وفات 29 جون کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں ہوئی۔
اداکار شکیل کا شمار پاکستان کے ان فنکاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنے کرئیر کا آغاز تو فلم سے کیا لیکن بعد میں ٹی وی کا رخ کیا ، 70 کی دہائی سے لے کر 2010 کی دہائی کے دوران انہوں نے ٹی وی پر لاتعداد ڈراموں میں کام کیا، اور 60 سال شوبز کو دیے۔
شکیل کا اصل نام یوسف کمال تھا۔ وہ 29 مئی 1938 میں بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے پانچ سال بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔ 60 کی دہائی میں انہوں نے اسٹیج پر اداکاری سے اپنے فنی کرئیر کا آغاز کیا اور یوسف کمال کے نام سے ہی اداکاری کرتے رہے۔
1966 میں بننے والی فلم ‘ہونہار’ میں جب اداکار وحید مراد کے چھوٹے بھائی کے کردار کے لیے نئے چہرے کی ضرورت پڑی تو ہدایتکار ایس ایم یوسف نے یوسف کمال کو چنا۔ چونکہ اس وقت فلم انڈسٹری میں کئی فنکار ایسے موجود تھے جن کے نام میں یوسف یا کمال آتا تھا۔ اس لیے ایس ایم یوسف نے یوسف کمال کو نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیا، اور پھر ان کا نام شکیل رکھ کر انہیں متعارف کرایا۔
اداکار شکیل اپنے فلمی کرئیر سے پہلے کراچی کی ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرتے تھے لیکن جب انہیں لاہور سے فلموں کی آفرز آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے ایکٹنگ کو پیشے کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا۔ یکے بعد دیگرے فلمیں فلاپ ہونے کے بعد وہ واپس کراچی آ گئے اور ٹی وی کا رخ کیا جس نے اس خوش شکل اداکار کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
ساٹھ کی دہائی سے لے کر 2018 تک انہوں نے فلموں اور ٹی وی میں بے تحاشہ کام کیا۔ فلموں میں انہوں نے جہاں وحید مراد، ندیم، کمال اور ہالی وڈ اداکار کرسٹوفر لی کے ساتھ اسکرین شئیر کی، وہیں ٹی وی پر انکل عرفی، ان کہی، آنگن ٹیڑھا، چاند گرہن اور بیلا پور کی ڈائن جیسے ہٹ ڈراموں میں بھی کام کیا۔
گزشتہ دس سالوں میں شکیل نے بڑھتی عمر اور بیماری کی وجہ سے ڈراموں میں کام کرنا کم کر دیا تھا، انہوں نے نہ صرف 70 کی دہائی کے مقبول ترین ڈراموں ‘زیر زبر پیش’، ‘شہزوری،، ‘انکل عرفی’ اور ‘افشاں’ میں ہیرو کا کردار ادا کیا بلکہ رنگین نشریات شروع ہونے کے بعد انہوں نے ‘پرچھائیاں’، ‘ان کہی’، آنگن ٹیڑھا’، اور ‘انا’ میں لازوال اداکاری سے سب کو اپنا مداح بنالیا۔
بشریٰ انصاری نے انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شکیل ایک بڑے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان بھی تھے۔
معروف اداکار جاوید شیخ نے شکیل کی وفات کو ٹی وی انڈسٹری کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا، وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب 50 سال قبل وہ اس انڈسٹری میں آئے تھے، اس سے پہلے ہی شکیل صاحب سپر اسٹار تھے۔
تھیٹر سے پہلے ریڈیو ہی وہ میڈیم تھا جس کی بدولت ان کے اندر کے فنکار کی حوصلہ افزائی ہوئی اور وہ اسی اعتماد کے ساتھ جب کالج تک پہنچے تو ریڈیو کے علاوہ تھیٹر میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے لگے۔ یہ 1960ء کی دہائی ہے۔
شکیل صاحب کا سب سے بڑا اعزاز 60 برس تک اپنے ناظرین سے محبت وصول کرنا تھا۔ ویسے انہیں 1992ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا، اس کے علاوہ انہیں چند چیزوں میں اولین ہونے کادرجہ بھی حاصل ہے۔
شکیل صاحب جیسے شاندار فنکار اور حساس انسان کی یادیں ہم سب کا سرمایہ ہیں اور پاکستانی فنون لطیفہ کی تاریخ بھی، ایک ایسی روشن تاریخ اور حقیقی تعارف جو دنیا بھر میں ہمارے ملک کی شناخت بنتا ہے، وہ ہمارے دلوں اور دعاؤں میں ہمیشہ شامل رہیں گے کیونکہ شکیل صاحب جیسے فنکار اپنے فن کی بدولت
نور جہاں کے عشق میں کیرئیر قربان کرنیوالے نذر محمد
ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔