عمران خان کیلئے رعائت ناممکن ،پورا رگڑا لگے گا؟

سینئر صحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے کہا ھے کہ عمران خان کے چاروں طرف دیواریں چن دی گئی ہیں نہ کوئی تحریک چلتی نظر آ رہی ہے نہ انصاف کے ایوانوں سے کوئی انقلابی فیصلہ آنے کی امید ہے اور نہ ہی مقتدرہ کا د ل نرم ہونے کی کوئی توقع ہے۔ سیاست میں نفرت اس قدر زیادہ ہے کہ عمران خان کے سیاسی حریف چاہتے ہیں کہ ان کو پورا رگڑا لگایا جائے، کوئی بھی انہیں رعایت دینے کو تیار نہیں۔ نون لیگ اور تحریک انصاف دونوں نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن اس نفرت سے ملک میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ اپنے ایک کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ طویل انتظار کے بعد سیاسی میدان میں ہلچل شروع ہو رہی ہے۔ ایک ٹیم وردیاں پہن کر میدان میں اترنےکے لئے تیار ہے مگر دوسری ٹیم نیم مردہ اور غیر متحرک ہے، ایسے میں میچ بھلا خاک ہو گا۔میچ تو تبھی مزیدار ہو گا کہ دونوں ٹیموں کو میدان میں اترنے کے برابر مواقع دیئے جائیں۔ حبس اور تنگی کے اس ماحول میں سیاست اور معیشت چلتی نظر نہیں آتی ۔ملک کو آگے لے جانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کھلاڑی کو راستہ دیا جائے اور اسے بھی کھیل میں شریک کیا جائے ۔عمران خان نے سیاست کے میدان میں بہت فائول کھیلے سیاست میں اپنے حریفوں کو چت کرنے کے لئے ہر حد پار کرلییہ درست ہے کہ کھلاڑی نے میڈیا کو بدنام کیا اور میڈیا کے ایک بڑے مالک کو کئی ماہ تک قید میں رکھا، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی کے کہنے پر ریفرنس بھیجا، جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کا ساتھ دیا ،خارجہ پالیسی کی نئی راہیں کھولنے کی بجائے بھارت سے روایتی دشمنی کی پالیسی کو جاری رکھا اور تو اور خود اپنی سرپرست فوجی قیادت سے بھی بنا کر نہ رکھی اور ملکی معیشت کو چلانے میں ناکام رہا ۔یہ ساری چارج شیٹ درست بھی مان لی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی کو میدان سے باہر ہی کر دیا جائے یہ تو فیئر پلے نہیں ہو گا ،ظلم اور ناانصافی ہو گی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ھے کہ نون لیگ کے لیڈر اور تحریک انصاف کے لیڈر دونوں نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن ان کی اس نفرت سے ملک میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہے اگر انہوں نے نفرت کی سیاست جاری رکھی تو وہ بالآخر ملک میں جمہوریت کے خاتمے پر منتج ہو گی ۔کھلاڑی پاپولر ہے اس کا بیانیہ بِک رہا ہے اوورسیز ہوں یا پاکستان کی شہری مڈل کلاس، غربت کے شکار لوگ ہوں یا مہنگائی سے پسے عوام سب کھلاڑی کو سراہتے ہیں کھلاڑی کے ساتھ ریاست کے برے سلوک سے وہ سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی ناراض ہو رہے ہیں ۔ان کا بیانیہ نفرت، گالی اور مایوسی سے بھرا ہوا ہے ایسے میں نون لیگ اور ریاست کی مقتدرہ کو سوچنا ہو گا کہ کھلاڑی کو سزائیں دینے سے مسئلے حل نہیں ہونگے بلکہ مسائل کا نیا انبار لگ جائے گا، یاد کریں کہ بھٹو کو پھانسی دیکر کیا بھٹو ختم ہوگیا ؟ہرگز نہیں بھٹو کی پھانسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پیپلز پارٹی خراب کارکردگی کے باوجود مسلسل پندرہ بیس برسوں سے سندھ میں حکمران ہے، مقتدرہ سندھ کے احساس محرومی کے ڈر سے مصلحت پسندی میں آکر پیپلز پارٹی کا راستہ روک نہیں پائی حالانکہ مقتدرہ کے کئی لوگ چاہتے ہیں کہ ہر صورت پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا چاہئے مگر مقتدرہ چومکھی لڑائی نہیں لڑنا چاہتی ۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا ،جیل میں رکھا گیا، 2018ء کا الیکشن ہروایا گیا ،دوبار جلاوطنی اختیار کرنا پڑی کیا انہیں سیاست سے نکالنے میں کامیابی ہوئی ؟ ہرگز نہیں ۔بالکل اسی طرح کھلاڑی کو جیل میں رکھ کر یا نااہل کرکے یا الیکشن سے باہر رکھ کر اسکی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جاسکا ۔واحد راستہ مصالحت ہے کھلاڑی کو سسٹم میں واپس لانا ہے بہتر ہے کہ یہ آج ہی کر لیا جائے وگرنہ کل کو مجبوراً اور زیادہ سخت شرائط پر یہی کرنا پڑے گا۔کھلاڑی کو بھی اب سیاسی ڈائیلاگ اور مفاہمت کے بند دروازے کھولنے ہونگے ،اصلی اور سچی جمہوری روایات کے ساتھ جڑنا ہو گا ،مقتدرہ کے ساتھ مل کر دھرنے اور گالیوں کی سیاست سے اجتناب کرنا ہو گا ۔ماضی میں ہر اسمبلی کے بائیکاٹ اور بالآخر اسمبلیوں کو توڑ دینے سے انہیں جو سیاسی نقصان ہوا اس سے انہیں سیکھنا ہو گا اور آئندہ کے لئے جذباتی فیصلوں کی بجائے عقلمندی کے فیصلے کرنا ہونگے۔ 9 مئی کے واقعہ نے کھلاڑی اور مقتدرہ کے درمیان کھلی جنگ چھیڑ دی، سیاسی جماعت کو مقتدرہ کے ساتھ اس طرح کی کھلی لڑائی سوٹ نہیں کرتی۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں الذوالفقار نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا تو مقتدرہ نے 9 مئی ہی کی طرح کابیانیہ بنا کر پیپلز پارٹی کو تخریب کار اور دہشت گردوں کی جماعت قرار دے دیا ،بے نظیر بھٹو نے بڑی خوش اسلوبی سے جہاز کے اغوا میں ملوث اپنے بھائی اور الذوالفقار سے اپنی راہیں جدا کرکے پرامن جمہوری جدوجہد کا راستہ اپنایا اور بالآخر مقتدرہ کو ایک دن انہیں اقتدار دینا ہی پڑا ۔کھلاڑی کو بھی پرامن جدوجہد کے راستے پر چلنا چاہئے اور تشدد یا تخریب کی طرف مائل لوگوں سے اپنی راہیں جدا کر لینی چاہئیں ۔ آخر میں سہیل وڑائچ کا کہنا ھے کہ پاکستان کو بنے 75سال ہو گئے یہاں تقریباً ہر منتخب وزیر اعظم کو جیل جانا پڑا ،ہر وزیراعظم کے خلاف عدلیہ نے فیصلے سنائے، ہر وزیراعظم کو مقتدرہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،ہر وزیر اعظم کا میڈیا ٹرائل ہوا۔ہر وزیر اعظم کو نشان عبرت بنانے کی کوشش ہوئی کبھی بے نظیر،کبھی نواز شریف، کبھی زرداری یا گیلانی اور اب عمران خان۔ کیا یہ دائرہ اب ٹوٹنا نہیں چاہئے کھلاڑی کو کھیل سے باہر رکھا گیا تو اس کے لاکھوں کروڑوں مداحین کا سسٹم پر یقین ختم ہو جائے گا ،ملک میں مایوسی بڑھ جائے گی اور استحکام بھی نہیں آ سکے گا۔ وقت آگیا ہے کہ پرانے کھیل ختم کرکے انصاف پر مبنی میچ میں اترا جائے