شہباز گل نے عدالت میں رونے دھونے کی نئی تاریخ کیسے رقم کی

19 اگست کو عدالت میں پیشی کے موقع پر عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی چیخوں اور رونے دھونے سے متاثر ہو کر عدالت نے کپتان کے بہادر ٹائیگر کو طبی بنیادوں پر دوبارہ پمز ہسپتال بھجوانے کا حکم تو جاری کردیا لیکن ساتھ میں یہ بھی واضح کر دیا کہ موصوف کا جسمانی ریمانڈ تب شروع ہوگا جب وہ دوبارہ میڈیکل چیک اپ کے بعد تندرست قرار دیئے جائیں گے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہباز گل کا رونا دھونا رائیگاں گیا اور اسے ابھی جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے ہونا ہے۔
یاد رہے کہ جب 19 اگست کو شہباز گل کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا تو انہوں نے زور زور سے چیخیں مار کر رونا شروع کر دیا اور یہ شور مچا دیا کہ ان کا آکسیجن ماسک اتار دیا گیا ہے جس کے بغیر وہ مر جائیں گے، عدالت میں پیشی کے موقع پر شہباز گل نے اسلام آباد پولیس پر ماضی کی طرح جسمانی تشدد کا کوئی الزام عائد نہیں کیا تاہم بابر اعوان نے دعویٰ کیا کہ شہباز پر شدید تشدد کیا گیا ہے اور ایسے اعضا پر چوٹیں لگی ہیں کہ بتایا بھی نہیں جا سکتا لیکن عدالت میں پیش کردہ پمز ہسپتال کے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں شہباز گل کو مکمل طور پر فٹ قرار دیا گیا۔
شہباز گل کے وکلا نے اس رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو عدالت نے دوبارہ سے میڈیکل کروانے کا حکم جاری کر دیا، عدالت نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست پر کارروائی کرنے کی بجائے اسے پمز ہسپتال بھیجنے کا حکم دیا اور پیر تک دوبارہ میڈیکل کروا کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا، اس موقع پر عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ جب تک شہباز گل کو مکمل طور پر فٹ قرار نہیں دیا جاتا ان کا ریمانڈ شروع نہیں ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب شہباز گل طبی طور پر صحت مند قرار دے دیئے جائیں گے تو انہیں جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا، جج کے یہ ریمارکس سن کر کمرہ عدالت میں وہیل چیئر پر موجود شہباز گل کی دوبارہ سے چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔
یاد رہے کہ یہ وہی شہباز گل ہیں جو اپنے سیاسی مخالفین کو رندہ پھیر کر انکی چیخیں نکلوانے کے دعوے کیا کرتے تھے، عمران خان کے چیف آف سٹاف کو اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور فوجی جوانوں کو اپنی قیادت کے خلاف اُکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔
جمعہ کے روز ڈیوٹی جج جوڈیشل مجسٹریٹ راجا فرخ علی خان نے اسلام آباد پولیس کی شہباز گل کے مزید 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی سماعت کی، شہباز گل کو پمز ہسپتال سے لا کر اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں وہیل چیئر پر بٹھا کر پیش کیا گیا، گل کی پیشی پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے تھے۔ ملزم کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عدالت کے باہر پولیس ایسے کھڑی ہے جیسے کوئی بہت بڑا دہشت گرد پیش ہو رہا ہے، حالانکہ میرے مؤکل شہباز گل سیاستدان ہیں اور بیمار ہیں۔
فیصل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل کو ایمبولینس میں ڈال کر عدالت لایا گیا جس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ پولیس ملزم کو اسٹریچر پر اٹھا کر لے آئے، اور عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت میں پیشی پر شہباز گل نے کہا کہ میرا آکسیجن ماسک چھین لیا گیا ہے، مجھ سے سانس نہیں لیا جا رہا، خدا کا واسطہ ہے میرا ماسک مجھے دے دیں۔ عدالت نے شہباز گل سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت میں رہنا چاہتے ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ماسک دے دیں، میں رک جاؤں گا۔ اس کے بعد انہوں نے زور زور سے کھانسنا شروع کر دیا اور آنسو بہانے شروع کر دیئے۔
اس دوران اسلام آباد پولیس نے شہباز گل کے مزید 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پہلے دو روزہ جسمانی ریمانڈ نہین ہوا تھا، اب آپ 8 روز کے ریمانڈ کی درخواست کیوں لے آئے ہیں؟ عدالت نے پولیس سے استفسار کیا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ ہوا یا نہیں؟ کیا پولیس 2 روز میں تفتیش کر سکی یا نہیں؟ کیا پولیس نیا ریمانڈ مانگ رہی ہے یا پہلے ریمانڈ کی توسیع چاہتی ہے، کیا تکنیکی طور پر پہلا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ شروع ہی نہیں ہوا؟ جواب میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ نام نہاد بیماری کی وجہ سے شہباز کا جسمانی ریمانڈ مکمل نہیں ہو سکا اور نہ ہی تفتیش ہو پائی ہے۔
اس موقع پر گل کے وکیل فیصل چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ پیر کو یہ کیس ہائی کورٹ میں بھی لگا ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ریمانڈ کے 48 گھنٹے پورے ہو چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب اگر شہباز کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا گیا تو ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
پولیس پراسیکیوٹر نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر دلائل دیئے، اور کہا کہ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ بیمار شخص کا ریمانڈ نہیں لیا جا سکتا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جیل ڈاکٹر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ جب ملزم ہمارے پاس آئے تو اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور اس کی تمام رپورٹس نارمل تھیں۔ رضوان عباسی نے کہا کہ جیل ڈاکٹر نے بتایا کہ شہباز کو مسئلہ شام کو تب شروع ہوا جب عدالت نے اسے جسمانی ریمانڈ پر دینے کا فیصلہ کیا۔
مقدمے کی سماعت کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ راجا فرخ علی خان نے پولیس کی جانب سے ریمانڈ کی استدعا رد کرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ جج کا کہنا تھا کہ کہ شہباز گل کا ریمانڈ تب شروع ہوگا جب وہ مکمل صحتیاب ہو جائیں گے۔
عدالت نے شہباز گِل کو پمز ہسپتال بھیجنے اور دوبارہ میڈیکل کرا کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ شہباز گل کے لیے اگلا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں جیسے ہی جسمانی طور پر فٹ قرار دیا جائے گا اسلام آباد پولیس انہیں دو روزہ ریمانڈ پر اپنے ساتھ لے جائے گی۔