عدالت سے غدار قرار پانے والا واحد حکمران مشرف ہے

دو مرتبہ آئین پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے جرم میں سزائے موت پانے والا جنرل پرویز مشرف پاکستان کا پہلا آرمی چیف ہے جسے ایک عدالت نے باقاعدہ غدار وطن قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے دور حکومت میں جنرل مشرف نے کئی سویلین سیاستدانوں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کیے۔ تاہم وقت آنے پر ثابت ہوا کہ غدار وطن دراصل مشرف خود تھا۔
مشرف نہ صرف غدار بلکہ بھگوڑا بھی نکلا۔ خود کو پاکستان کا پہلا کمانڈو صدر قرار دے کر مکے لہرانے والا جنرل مشرف غداری کیس کی کارروائی سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہوگیا تھا۔ پاکستان کے اب تک کے آخری فوجی آمر کی قسمت گذشتہ دو دہائیوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ 1999 میں اقتدار پر بزور طاقت قابض ہونے کے بعد وہ متعدد قاتلانہ حملوں میں بچ نکلا لیکن 2008 کے انتخابات میں انسے شکست ہوئی اور اس پر غیرقانونی طور پر آئین کو معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور اس کے اقتدار کے عروج کے 20 برس بعد ان کی غیر موجودگی میں عدالت نے انہیں آئین سے بغاوت کے جرم میں سزائے موت سنا دی۔
پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو دِلی کے اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوا۔ 1947 کی تقسیمِ ہند کے بعد اس کے والدین ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔ فوج میں ایک لمبی ملازمت کے بعد وہ 1998 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے چیف آف سٹاف مقرر ہوا اور اگلے ہی سال اس نے ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس کا انتخاب نواز شریف کے لیے جوا ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے پرویز مشرف کو نسبتاً سینیئر جنرلز پر فوقیت دیتے ہوئے فوج کی کمان سونپی تھی۔ بعد میں جب نواز شریف نے مشرف کو تبدیل کرنا چاہا تو اس وقت کے فوجی سربراہ نے انتہائی ہوشیاری سے اپنی فوجی طاقت کے بل پر اقتدار پر قبضہ کر لیا لیکن امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پرویز مشرف امریکہ کی ضرورت بن گیا۔ تاہم کچھ سالوں بعد مشرف پر نیٹو اور افغان حکومت کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جانے لگا کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے ہمدرد جنگجوؤں کی فاٹا کے راستے افغانستان میں نقل و حمل کو روکنے کی کافی کوشش نہیں کر رہا۔ یاد رہے کہ 2011 میں اسامہ بن لادن پاکستان میں پائے گئے جہاں وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریبی علاقے میں برسوں سے رہائش پذیر تھے اور مشرف برسوں انکار کرتا رہا کہ اسے اس کے بارے میں کوئی علم تھا۔
جنرل مشرف کا دور اقتدارعدلیہ کے ساتھ کھینچا تانی سے بھی بھرپور رہا جس میں اس کے فوجی سربراہ رہتے ہوئے صدر کے عہدے پر قائم رہنے کی خواہش کا تنازع بھی شامل تھا۔ 2007 میں اس نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کردیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ چند مہنیوں بعد اس نے اسلام آباد میں لال مسجد اور اس سے ملحق مدرسے کے خونی محاصرے کا حکم دے ڈالا جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد مارے گئے۔ اس واقعے کے ردِ عمل میں تحریک طالبان کی تخلیق ہوئی اور خود کش بم حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔
جب 2007 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جلا وطنی کاٹ کر لوٹے تو یہ مشرف دور کے خاتمہ کا آغاز تھا۔ سابق فوجی جنرل نے اپنا دور اقتدار بڑھانے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی لیکن فروری 2008 میں اس کی جماعت پارلیمانی انتخابات ہار گئی۔ چھ ماہ بعد اس نے مواخذے سے بچنے کے لیے استعفی دے دیا اور ملک چھوڑ کر چلا گیا۔
مارچ 2013 میں وہ ڈرامائی انداز میں پاکستان لوٹا تاکہ انتخابات میں حصہ لے لیکن اس کی واپسی گرفتاری پر منتج ہوئی۔ اسے انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا اور اس کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ توقع کے مطابق انتخابات میں پِٹ گائی۔ جلد ہی وہ عدالتی مقدمات میں الجھ گیا جن میں بینظیر بھٹو کو ناکافی سکیورٹی فراہم کرانا بھی تھا جس کے نتیجے میں وہ 2007 میں طالبان کے ہاتھوں قتل ہوگیئں جس نے دنیا اور پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ 2010 میں اقوامِ متحدہ کی ایک انکوائری رپورٹ میں بھی جنرل مشرف پر الزام عائد کیا گیا ہے انھوں نے سابق وزیرِ اعظم کی سیکورٹی میں ’جان بوجھ کر کوتاہی‘ برتی۔
اسی برس نواز شریف حکومت نے 2007 میں آئین معطل کرنے کے فیصلے پر مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا۔ لیکن ایسا ملک جہاں ایک طویل عرصے تک فوج کی حکومت رہی ہوں وہاں یہ مقدمہ چلنا آسان نہیں تھا۔ اس لیے حکومت نے سابق حکمران کا مقدمہ سننے کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کی۔ اس مقدمے کو پانچ برس لگے اور بالآخر تین رکنی عدالت کے ججوں نے ایک حیران کن فیصلہ سنایا کہ مشرف غداری کا مجرم ہے۔ یوں مشرف کو پاکستان کے پہلے عدالتی غدار ہونے کا شرف حاصل ہوا حالانکہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ بلڈی سویلینز کو ہی غدار قرار دیا۔