عمران خان نے اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرلیا

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کو تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ ہمیں تو 3 مہینے صرف سمجھنے میں لگ گئے، ہر چیز جو ہم باہر سے بیٹھ کر دیکھ رہے تھے جب حکومت میں آئے تو وہ بالکل مختلف تھی۔
وفاقی وزراء کی کارکردگی اور انہیں اہداف سونپنے کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں اس سسٹم پر نظر ثانی کرنی چاہیے، جب آپ کی ٹیم بن جائے تو پھر آپ کو حکومت سنبھالنے سے پہلے پورا ٹائم ملنا چاہیے خصوصی طور پر حکومت سنبھالنے کی تیاری کیلئے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ نے گورننس کیسے دینی ہے اس حوالے سے آپ کی ٹیم کی بریفنگ ہونی چاہیے ہر محکمے کی مثلاً وزیر ریلوے کی پوری بریفنگ ہو کہ ریلوے کے اندر اصل میں کیا صورتحال ہے‘۔وزیراعظم نے کہا کہ ہر شعبے سے متعلق بریفنگ ہونی چاہیے کہ بجلی کی صورتحال ہے، خسارہ کتنا ہے وغیرہ وغیرہ تاکہ جب آپ عہدہ سنبھالیں تو آپ کو پوری طرح پتہ ہوکہ آپ نے کیا ایجنڈا نافذ کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب میں آج اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو ہمیں تو 3 مہینے صرف سمجھنے میں لگ گئے، ہر چیز جو ہم باہر سے بیٹھ کر دیکھ رہے تھے جب حکومت میں آئے تو وہ بالکل مختلف تھی۔
عمران خان نے کہا کہ کئی اعداد و شمار خاص طور پر توانائی کے شعبے سے متعلق ڈیڑھ سال تک تو حقیقی اعداد و شمار کا ہی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ کبھی کوئی فیگر آجاتی تھی ہم سمجھتے تھے بڑا اچھا پرفارم کررہا ہے پھر کہیں اور سے دوسری فیگر آجاتی تھی اور پتہ چلتا تھا کہ ہم اتنا اچھا نہیں کررہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘میں اپنی رائے دے رہا ہوں کہ کبھی بھی نئی گورنمنٹ کو اس طرح حکومت میں نہیں آنا چاہیے، اس کی پوری تیاری ہونی چاہیے، ان کو پوری طرح بریفنگ دینی چاہئیں’۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف نے پہلی بار مرکز میں حکومت قائم کی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ تحریک انصاف کی حکومت کا 8 واں سال ہے۔
قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کوئی لابی کسی وزیر کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈالے یہ قابل قبول نہیں۔وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں 12 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا، کابینہ اجلاس میں سیاسی، معاشی اورسیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، کابینہ کو کورونا کی حالیہ صورت حال سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی، اس کے علاوہ پی ڈی ایم کی تحریک اور سینیٹ انتخابات کی تیاریوں پر بھی تفصیلی مشاورت ہوئی۔
وفاقی کابینہ نے ٹربائن فیول ایوی ایشن ہائی فلیش کی درآمد، سی ڈی اے آرڈیننس 1980 میں ترمیم ، یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن کے ملازمین پر لازمی سروسز ایکٹ کی توسیع ، ڈی جی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بحری سائنس،زرعی ترقیاتی بینک کے بورڈ کی تشکیل نو اور ایس ٹی ای ڈی ای سی کے ایم ڈی کی تقرری کی منظوری دے دی۔ اس کے علاوہ الیکٹرک وہیکل اور موبائل مینوفیکچرنگ پالیسیوں کی بھی منظوری دی گئی۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی کابینہ کا ہر فیصلہ اجتماعی حیثیت میں ہوتا ہے، کوئی لابی کسی وزیر کے ذریعے دباؤ ڈالے یہ قابل قبول نہیں، کسی وزیر کو کوئی لابی تنگ کرے تو وہ کابینہ کو یا مجھے الگ سے بتائے، ہم فیصلے کسی لابی کے دباؤ میں نہیں بلکہ شفاف اور میرٹ پر کریں گے۔
وفاقی کابینہ نے مردم شماری پر وزراء کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی، ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر امین الحق نے رپورٹ کو مسترد کردیا، وفاقی کابینہ نے ایم کیو ایم کے اختلافی نوٹ کے ساتھ رپورٹ کو منظور کرلیا، اختلافی نوٹ میں ایم کیو ایم کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ نئی مردم شماری فوری طور پر کروائی جائے۔
وفاقی کابینہ میں ساتویں مردم شماری کرانے کے لئے بھی بات چیت کی گئی جس پر وزرا کی جانب سے رائے دی گئی کہ آئین کے تحت حکومت کسی بھی وقت مردم شماری کروا سکتی ہے، آئندہ مردم شماری میں مرکزی کردار نادرا کا ہونا چاہیے، وفاقی کابینہ نے مردم شماری کے معاملے پر مزید مشاورت کے لئے وزارتی کمیٹی قائم کر دی۔