نئے پاکستان میں غداری کا الزام ایک گالی سے میڈل کیسے بنا؟

ریاستی اداروں کی جانب سے اپنے ہی شہریوں پر غداری کے بےدریغ اور مسلسل الزامات کی بارش نے اب اس زہر آلود لفظ کی سنگینی ختم کر دی ہے اور اسکے معنی بھی تبدیل کر دیے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب لفظ غدار کو گالی کے طور پر لیا جاتا تھا لیکن آج حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ جس شخص کو بھی ریاست پاکستان غدار قرار دیتی ہے وہ عوام کی نظروں میں معتبر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ لفظ اب کوئی گالی نہیں بلکہ ایک میڈل کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اب پاکستانی عوام بہت اچھی طرح جان چکے ہیں کہ جس شخص کو بھی غداری کا طعنہ دیا جا رہا ہے وہ کہیں نہ کہیں سچ بولنے پر مصر ہو گا اور کوئی حق بات کہہ رہا ہو گا ۔ لہذا آج حالات یہ ہیں کہ لوگوں پر غداری کے فتوے لگ رہے ہیں اور ان فتووں کو لوگ سینے پر تمغوں کی طرح سجا رہے ہیں۔
غداری کے لفظ سے ہمارا تعارف نیا نہیں۔ ہم نے انسانوں کے علاوہ ملکوں کو بھی غدار کہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کہ نعرے سنا کرتے تھے۔ پھر وہ زمانہ بھی آیا جب ریاست نے مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کہ نعرے لگوانے شروع کر دیے۔ پھر ریاست پاکستان نے یہ الزام لگایا کہ دراصل نواز شریف مودی کا یار تھا۔ تاہم اس الزام کو پاکستانی عوام میں کوئی پذیرائی نہیں مل سکی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب مودی کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا رہا تھا تو پاکستان کی ریاست اور حکومت دونوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دیتے وقت فرمایا تھا کہ اس فیصلے کی ایک بڑی وجہ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھی ہے۔
معروف تجزیہ نگار اور کالم نویس عمار مسعود کا کہنا ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح ہم نے غداری کی تعریف بدل دی ہے اسی طرح ہمارے ہاں حب الوطنی کی تعریف بھی مختلف ہو گئی ہے۔ اب اس سماج میں خاموش رہنا حب الوطنی ہے۔ ظلم دیکھ کر آواز نہ اٹھانا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنی تضحیک، توہین اور تمسخر برداشت کرنا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ عوامی نمائندوں کی تذلیل پر ٹھٹھے لگانا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنے جمہوری حقوق سے درگزر کرنا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنی نافرمان زبان کو دانتوں تلے پیس لینا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنے افکار کو اپنی قوت اظہار کو مقید رکھنا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنی سوچ کے دریا کو کوزے میں تھام لینا حب الوطنی ہو گیا ہے۔
عمار مسعود اظہار حیرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عجب زمانہ آ گیا ہے کہ لوگوں پر غداری کے فتوے لگ رہے ہیں اور ان فتووں کو لوگ سینے پر تمغوں کی طرح سجا رہے ہیں۔ ان فتووں سے اب کسی کو مفر نہیں۔ اب ہر کوئی اس کی زد میں آسکتا ہے۔ کسی پر بھی دھرتی سے بے وفائی کا الزام آسکتا ہے۔ سیاست دان ہوں یا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، صحافی ہوں یا سول سوسائٹی کے ممبر، اراکین پارلیمنٹ ہوں یا پھر وکلا برادری۔ سب غدار کہلائے جا چکے ہیں۔ سب کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ غداری بہت گھناؤنا الزام ہے۔ وطن ماں جیسا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بے وفائی غداری کہلاتی ہے۔ اس زمین کو بیچ دینا، اس کے مفادات پر سمجھوتا کرنا، اس کو غیر ملکی آقاؤں کے سامنے سجدہ ریز کر دینا غداری کی تعریف میں آتا ہے، لیکن ہمارے ہاں غداری کی موجودہ تعریف مختلف ہے۔ اب سوال کرنا غداری ہے۔ اب حکومت پر تنقید کرنا غداری ہے۔ اب سیاسی تحریک چلانا غداری ہے۔ اب خبر دینا غداری ہے۔ اب سچ بولنا غداری ہے۔ اب حق کی بات کرنا غداری ہے۔ اب جلسہ کرنا غداری ہے۔ اب اپنے حقوق کے لیے جلوس نکالنا غداری ہے۔ اب اپنے مطالبات کی بات کرنا غداری ہے۔ اب جمہوری حق مانگنا غداری ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کا اکھٹا ہونا غداری ہے۔ اب حکومتی ارکان کی لندن میں خفیہ ملاقات غداری ہے۔ اب غیر جمہوری قوتوں کے خلاف بات کرنا غداری ہے۔ اب جمہوریت کے حق میں بیان دینا غداری ہے۔
دراصل غداری کے فتوے لگنا پاکستانی سماج میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہ روایت ہمارے ہاں دہائیِوں پرانی ہے۔ ہر مختلف آواز کو یہی طعنہ دیا گیا۔ ہر نئی بات کو یہی الزام دیا گیا۔ ایسے فتوے لگانے والی فیکٹری نے بنیادی طور پر تین طرح کی نفرتیں تقسیم کی ہیں۔ ہر مخالف آواز کو کافر کہا گیا، اس سے کام نہیں چلا تو کرپٹ کا نعرہ لگا دیا گیا اور اس سے بھی کوئی منہ زور باز نہ آیا تو اس پر غداری کا الزام تھوپ دیا گیا۔ غداری کی یہ کہانی اتنی پرانی ہے جتنی ہماری سیاسی تاریخ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام لے لیں وہ انہی خون آشام الزامات سے گزرا ہے۔ فاطمہ جناح کو بھی ایوب کے ہاتھوں اس الزام کا سامنا کرنا پڑا، بھٹو بھی ضیا کے ہاتھوں غدار کہلائے، بے نظیر بھی مسرف دور میں سکیورٹی رسک کہلائیں، نواز شریف آج بھی یہی الزام سہہ رہے ہیں، مریم نواز کو بھی اب غدار کہا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان بھی اس فتوے کی زد میں آگئے ہیں۔ پہلے پہل یہ تمغے صرف سیاسی قائدین میں تقسیم ہوتے تھے مگر اب لوگ منہ زور ہو گئے ہیں، اب ان کی تقسیم عام ہو گئی ہے۔ اب صحافی، سماجی کارکن، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سب اسی الزام میں رنگے ہوئے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماضی کی طرح لوگ اس فتوے سے خوفزدہ ہو کر چُپ ہو جائیں۔ حب الوطنی کے معروف طریقے کے مطابق خاموش ہو جائیں، لیکن اس دفعہ مماملہ مخلتف ہے۔ اب لوگ ان باتوں سے ماورا ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ نڈر ہو گئے ہیں۔ وہ اس الزام سے ڈرتے نہیں اس پر ہنستے ہیں۔ پہلے یہ الزام لوگوں کے ماتھوں پر کلنک کا ٹیکہ بن جاتا تھا۔ اب لوگ اسے تمغے کی طرح سینے پر سجاتے ہیں۔ الزام لگنے پر جشن مناتے ہیں۔ غداری کے فتوے لگانے والی فیکٹری اس صورت حال سے پریشان ہو کر زیادہ مال بنا رہی ہے۔ اب زیادہ فتوے لگ رہے ہیں۔ تماشا یہ ہے کہ جب ہر شخص غداری کے فتوے سے سرفراز ہو جائے گا تو لوگوں کا خوف ختم ہو جائے گا۔ لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دور میں غداری جس کو طعنہ دیا گیا وہ شخص کہیں نہ کہیں سچ بولنے پر مصر ہو گا۔ کوئی حق بات کہہ رہا ہو گا۔ کسی بڑے بُرج کو گرا رہا ہو گا۔ کوئی نئی سوچ لا رہا ہو گا۔ اب لوگ ایسے افراد کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کی تکریم کرتے ہیں۔ دل ہی دل میں ان کی بہادری پر انہیں سرہاتے ہیں۔
پاکستانیوں نے اپنے بچپن میں امریکہ کے حوالے سے استعماری اور صہیونی قوتوں جیسے الفاظ بھی بہت سنے ہیں۔ اس وقت بس اتنا ہی سمجھ آتا تھا کہ جو بھی امریکہ سے تعلقات رکھے گا وہ غدار کہلائے گا۔ آج یہ عقدہ بھی کھل گیا۔ امریکہ میں حاضر سروس فوجی حضرات کا پیزا کا کاروبار کرنا اور بچے پڑھانا غداری نہیں لیکن سویلینز اگر یہی کام کریں تو وہ غدار وطن قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ لیکن اب پاکستانی قوم میں یہ شعور بھی اجاگر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ دراصل پاکستانی سویلینز کو غدار قرار دینے والے ہی اصل غدار ہیں۔