نومبر میں کونسا جرنیل اگلا آرمی چیف بننے والا ہے؟

شہباز شریف کی اتحادی حکومت اگلے چند ہفتوں میں اپنی سیاسی زندگی کا سب سے مشکل ترین فیصلہ کرنے جا رہی ہے جو کہ نومبر 2022 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر نئے آرمی چیف کے انتخاب کا ہے۔ لیکن آرمی چیف ہی وہ واحد فور سٹار عہدہ نہیں جو نومبر میں خالی ہوگا بلکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا بھی ریٹائر ہوجائیں گے، دو فور سٹار جرنیلوں کے بیک وقت تقرر کی گنجائش پیدا ہونے سے حکومت کو فیصلے میں تھوڑی آسانی میسر آئے گی تاکہ وہ اعلیٰ فوجی افسران میں بے چینی پیدا کیے بغیر ہی کمانڈر کا انتخاب کر لے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت چھ سینئر لیفٹیننٹ جنرلز میں سے چار جرنیل ایک ہی بیچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لاٹ کی سنیارٹی کا تعین تکنیکی بنیادوں پر کیا جاتا ہے یعنی پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ان کے تربیتی دنوں سے انہیں تفویض کردہ پی اے نمبر کے ذریعے اس کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دو جرنیلوں کی نسبت باقی تقریباً پوری لاٹ نسبتاً جونیئر افسران پر مشتمل ہے۔
یاد رہے کہ جب اگلے چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر کا فیصلہ کیا جائے گا تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر موجودہ لاٹ میں سب سے سینئر ہوں گے، گو کہ ابہیں ستمبر 2018 میں بطور دو سٹار جنرل ترقی دی گئی تھی لیکن انہوں نے دو ماہ بعد عہدے کا چارج سنبھالا جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ان کا چار سالہ دور 27 نومبر کو تب ختم ہوگا جب موجودہ چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اپنی فوجی وردی اتار رہے ہوں گے۔ چونکہ دو فور اسٹار جنرلز کے تقرر کے لیے سفارشات اور فیصلے کچھ عرصہ پہلے کیے جانے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو کرنا ہے کہ آیا عاصم منیر کا نام آرمی چیف کے امیدواروں میں شامل کیا جانا ہے یا نہیں۔ لیکن حتمی فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کو کرنا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بہترین افسر ہیں لیکن اس تقرر کے معاملے میں تکنیکی پیچیدگیوں کے سبب انہیں انگریزی محاورے کے مطابق ‘ڈارک ہارس’ کہا جاسکتا ہے یعنی وہ بھی اس عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر منگلا میں آفیسرز ٹریننگ اسکول پروگرام کے ذریعے سروس میں شامل ہوئے اور فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، وہ تب سے جنرل قمر باجوہ کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ عاصم منیر نے جنرل باجوہ کے ماتحت بریگیڈیئر کے طور پر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز میں فوجیوں کی کمان سنبھالی تھی۔ تب جنرل باجوہ دس کور کے کمانڈر کور تھے، بعد ازاں عاصم منیر کو 2017 کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس مقرر کیا گیا اور اگلے سال اکتوبر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا، تاہم اعلیٰ انٹیلی جنس افسر کے طور پر ان کا اس عہدے پر قیام مختصر مدت کے لیے رہا کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے اصرار پر آٹھ ماہ کے اندر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تقرر کردیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ عاصم منیر کو چند ماہ بعد ہی بطور ڈی جی آئی ایس آئی ہٹائے جانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عمران اصل میں فیض حمید کو اس عہدے پر لگانا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عاصم منیر نے عمران خان کو بشری بی بی کے خاندان کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے آگاہ کیا تھا جس پر وہ ناراض ہوگئے تھے۔ بعد ازاں انہیں کور کمانڈر گوجرانوالہ مقرر کردیا گیا تھا۔ اس وقت عاصم منیر جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور تعینات ہیں۔
عاصم منیر کے علاوہ جس جرنیل کے آرمی چیف بننے کا امکان موجود ہے وہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں۔ وہ ایک ہی بیچ سے تعلق رکھنے والے آرمی چیف کے چار امیدواروں میں سب سے سینئر ہیں۔ ان کا تعلق سندھ رجمنٹ سے ہے جو کہ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کا پیرنٹ یونٹ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا فوج میں بہت متاثر کن کیریئر رہا ہے اور گزشتہ 7 برسوں کے دوران انہوں نے اہم لیڈرشپ عہدوں پر بھی کام کیا ہے۔ ان کو جنرل راحیل شریف کے دور کے آخری دو برسوں میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی حیثیت سے توجہ ملنا شروع ہوئی۔ اس حیثیت میں وہ جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف کی اس کور ٹیم کا حصہ تھے جس نے شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کی نگرانی کی۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کیا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ فوج میں عملی طور پر چیف آف آرمی اسٹاف کے بعد دوسری طاقتور ترین شخصیت بن گئے۔ اس حیثیت میں وہ خارجہ امور اور قومی سلامتی سے متعلق اہم فیصلہ سازی میں شامل رہے۔
اکتوبر 2021 میں انہیں کور کمانڈر راولپنڈی تعینات کیا گیا تاکہ انہیں آپریشنل تجربہ حاصل ہوجائے اور وہ اہم عہدوں کے لیے اہل ہوجائیں۔ ایک فوجی ذرائع نے ان کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ چیف آف آرمی اسٹاف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بننے کے لیے واضح امیدوار ہیں۔ تاہم انہیں جنرل فیض حمید کے بھی کافی قریب تصور کیا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس آرمی چیف کے موجودہ امیدواروں کے مابین بھارت کے امور پر سب سے زیادہ تجربہ کار فرد ہیں۔ اس وقت وہ چیف آف جنرل اسٹاف ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جی ایچ کیو میں آپریشنز اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹس کی نگرانی کرتے ہوئے عملی طور پر فوج کو چلاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ 10 کور کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ 10 کور راولپنڈی میں تعینات ہوتی ہے لیکن اس کی اصل توجہ کشمیر پر ہوتی ہے اور یہ سیاسی حوالے سے بھی اہم کور ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں موجودہ آرمی چیف کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ جس دوران اظہر عباس 10 کور کی کمانڈ کر رہے تھے اسی دوران بھارت اور پاکستان کی افواج 2003 کے مابین لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے احترام کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کی ہی ذمہ داری تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ماضی میں انفنٹری اسکول کوئٹہ کے کمانڈنٹ رہ چکے ہیں۔ وہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پرسنل اسٹاف افسر بھی تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اعلیٰ سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے۔ اس عہدے کی وجہ سے وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور دیگر دوست ممالک کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملتے رہے ہیں۔ وہ مری میں تعینات 12 انفنٹری ڈویژن کی بھی کمانڈ کر چکے ہیں جہاں آزاد جموں و کشمیر ان کی ذمہ داری کے علاقے میں شامل تھا۔
آرمی چیف کے عہدے کے ایک اور امیدوار بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر ہیں۔ وہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے چیف انسٹرکٹر کے طور پر بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ شمالی وزیرستان میں ایک انفنٹری ڈویژن کی کمان کر چکے ہیں جہاں سے انہیں آئی ایس آئی میں بطور ڈائریکٹر جنرل انیلسز تعینات کردیا گیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے قومی سلامتی کے تناظر میں خارجہ پالیسی کے تجزیے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس عہدے کے باعث انہیں آئی ایس آئی کی جانب سے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رابطہ کاری کا بھی موقع ملا۔ 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل آف کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی تعینات کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں دسمبر 2019 میں 11 کور یعنی پشاور کور میں تعینات کردیا گیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے پاک ۔ افغان سرحد کی سیکیورٹی اور اس پر باڑ لگانے کے عمل کی نگرانی کی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا، افغانستان سے اپنی فوجیں نکال رہا تھا۔ نومبر 2021 میں انہوں نے پشاور کور کی کمان لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے سپرد کردی تھی جنہیں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے ہٹایا گیا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے قریب تصور کیے جانے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ اس وقت آرمی چیف کے امیدواروں میں سے سب سے زیادہ تذکرہ انہی کا کیا جارہا ہے حالانکہ جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں ان کا نام نام کافی نیچے ہے۔ جنرل فیض کو پاکستانی فوجی تاریخ کا متنازع ترین جرنیل بھی قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل قمر باجوہ اور فیض حمید ایک عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ان کے قریبی تعلقات ہیں اسی لیے سیاست میں ملوث ہونے کے الزامات کے پر پشاور سے نو۔ماہ بعد ہی ہٹائے جانے کے باوجود انہیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں کھڈے لائن لگانے کی بجائے بہاولپور کور سونپ دی گئی جہاں انہوں نے 14 اگست کو یوم آزادی کی ایک تقریب میں کرکٹ کھیلتے ہوئے کپتان کا انتخابی نشان بلا بھی لہرا کر دکھایا۔ بحیثیت برگیڈیئر، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے 10 کور میں جنرل باجوہ کے چیف آف اسٹاف کے فرائض بھی سر انجام دیے تھے۔ اس وقت جنرل باجوہ 10 کور کی کمان کر رہے تھے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کے وقت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید میجر جنرل تھے اور وہ پنو عاقل، سندھ میں ایک انفنٹری ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ آرمی چیف بننے کے کچھ عرصے بعد ہی جنرل باجوہ نے انہیں آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل (کاؤنٹر انٹیلی جنس) لگا دیا تھا جہاں وہ داخلی سلامتی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات کے بھی ذمہ دار تھے۔لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں اپریل 2019 میں جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تعینات کردیا گیا۔ دو ماہ بعد ہی انہیں حیرت انگیز طور پر ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کردیا گیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے کئی امور میں حکومت کی معاونت کی۔ ان میں توانائی کے شعبے میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے مذاکرات کرنا، حکومتی اصلاحات، معیشت کی بحالی شامل تھی۔ اس کے علاوہ وہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور پر کام کرتے رہے۔
بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے آخری دور میں وہ آرمی چیف اور عمران خان کے تنازع میں توجہ کا مرکز بنے۔ آرمی چیف انہیں کور کمانڈر پشاور تعینات کرنا چاہتے تھے لیکن عمران خان چاہتے تھے کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی ہی رہیں۔ بلآخر انہیں پشاور میں تعینات کردیا گیا جہاں انہوں نے ایک سال سے بھی کم عرصہ گزارا جس کے بعد انہیں کور کمانڈر بہاولپور تعینات کردیا گیا۔
سیاسی پنڈتوں کے خیال میں یہ بہت مشکل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت انہیں آرمی چیف کے لیے منتخب کرے، کیونکہ وہ گزشتہ حکومت کے دور میں بطور ڈی جی آئی ایس آئی خبروں کی زینت بنے رہے۔ ایسے میں ممکن نہیں کہ شہباز شریف کے ہاتھوں جنرل فیض حمید پاکستان آرمی کے نئے سربراہ مقرر ہو پائیں۔
آرمی چیف کے آخری امیدوار لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کا تعلق آرٹلری رجمنٹ سے ہے اور اس وقت وہ گجرانوالہ کور کی کمان کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تھے۔ بطور میجر جنرل انہوں نے 2017 اور 2018 میں 10 انفنٹری ڈویژن کی کمان کی ہے جو کہ لاہور میں تعینات ہے۔ وہ چیف آف آرمی اسٹاف سیکریٹریٹ میں ڈی جی اسٹاف ڈیوٹیز بھی رہ چکے ہیں جس کے باعث وہ کمانڈ عہدوں اور جی ایچ کیو کا خاطر خواہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ 2011 سے 2013 تک سابق صدر آصف علی زرداری کے ملٹری سیکریٹری بھی رہے ہیں۔ اپنے کیریئر کے دوران وہ آج کے فیصلہ سازوں کے بہت قریب رہے ہیں۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے آرمی چیف کے عہدے کے لئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا انتخاب ہوتا ہے یا لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا۔

Back to top button