نیب چیئرمین آفتاب سلطان جاسوسوں کے جاسوس کیوں کہلائے؟


بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ نیب کے نئے چیئرمین تعینات ہونے والے آفتاب سلطان نے بطور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو جاسوسوں کے جاسوس ہونے کا خطاب حاصل کیا تھا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی جانب سے عمران خان کو آگے لگا کر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت گرانے کی سازش ناکام بنائی تھی۔ اسی لیے تحریک انصاف نے شہباز شریف پر ’اپنے وفادار‘ کو نیب چیئرمین تعینات کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس تعیناتی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا یے۔

یاد رہے کہ جب عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے 2014 میں عین پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک پر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف 126 دن کا دھرنا دیا تھا تب آفتاب سلطان ڈی جی آئی بی تھے۔
یہ وہ عرصہ ہے جب جاسوسی کے اداروں کے کردار میں اضافہ ہو گیا تھا اور آفتاب سلطان کی ذمہ داری ’جاسوس کی جاسوسی‘ کرنا تھی جو نواز حکومت گرانے کی سازش کر رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آفتاب سلطان سب سے بڑے جاسوس کی جاسوسی کرنے میں کامیاب رہے اور نواز حکومت بچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن اور انکے قریبی ساتھی مشاہد اللہ خان نے عمران کا 2014 دھرنا ختم ہونے کے بعد بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ’ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔‘ مشاہد اللہ خان کے بقول اس سازش کا انکشاف تب ہوا جب سویلین انٹیلیجینس ادارے انٹیلیجنس بیورو نے تب کے آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔‘

ان کے مطابق ’28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انھیں سُنواز دی تھی۔‘ بتایا جاتا ہے کہ راحیل شریف نے یہ آڈیو سننے کے بعد ظہیرالاسلام سے وضاحت طلب کی تھی جس کے بعد وہ دفاعی پوزیشن میں چلے گئے تھے اور نواز حکومت گرانے کی سازش ناکام ہوگئی تھی۔ تاہم تب کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا تھا کہ میڈیا میں زیرِ بحث آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق خبریں ’بے بنیاد اور حقیقت سے دور‘ ہیں۔

لیکن جب نواز شریف کا اسلام آباد میں نیب کی ایک احتساب عدالت میں پاناما مقدمے میں ٹرائل ہو رہا تھا تو نواز شریف نے عدالت کے سامنے بھی ان حقائق کی تصدیق کی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں مستعفی ہونے یا طویل چھٹی پر بیرون ملک جانے کا پیغام موصول ہوا تھا، جسے انھوں نے مسترد کر دیا تھا۔ نواز شریف نے یہ بیان عدالت کے سامنے اپنے بیان میں بھی دیا تھا تاہم عدالت نے آفتاب سلطان کو تصدیق کے لیے بلانے کے بجائے سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد بیان کا وہ حصہ عدالتی ریکارڈ سے حذف کر دیا جس میں نواز شریف نے دھرنوں سمیت دیگر امور پر تفصیلات بیان کی تھیں۔

یاد رہے کہ آفتاب سلطان دوسرے سابق بیوروکریٹ ہیں جنھیں اس عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ اُن سے قبل سابق بیوروکریٹ چوہدری قمر زمان کو چیئرمین نیب تعینات کیا گیا تھا۔ نیب کی تاریخ میں زیادہ تر چیئرمین ریٹائرڈ جرنیل بنے یا اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز، جنھوں نے سیاسی رہنماؤں کے علاوہ کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کا بھی خوب احتساب کیا۔ نیب کے ہوس زدہ سابق چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد یہ عہدہ چند ہفتوں سے خالی تھا۔ عمران خان کے دور میں مدت ملازمت ختم ہونے کے باوجود جاوید اقبال کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے توسیع دی گئی تھی۔تحریک عدم اعتماد کے بعد جب عمران خان سابق وزیر اعظم ہو گئے تو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی شہباز شریف نے جاوید اقبال کو گھر جانے کا پیغام بھیجا تھا جبکہ اسی نوعیت کے مطالبات سینیئر لیگی اراکین نے بھی کیے تھے۔

جاوید اقبال کی جگہ لینے والے نئے نیب چیئرمین آفتاب سلطان اپنے کیریئر کے دوران مختلف تنازعات کا شکار بھی رہے۔ جب پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے بعد 2002 میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت آفتاب سلطان سرگودھا میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔ سینئیر صحافی اعزاز سید کے مطابق آفتاب سلطان کو ’اعلیٰ حکام‘ سے یہ پیغام موصول ہوا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریفرنڈم میں ووٹ کرنے کو کہیں مگر انھوں نے ان احکامات پر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اعزاز کے مطابق جب ریفرنڈم کا نتیجہ آیا تو سرگودھا ان چند شہروں میں سے ایک تھا جہاں ٹرن آؤٹ دیگر شہروں کے مقابلے میں انتہائی کم رہا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعدآفتاب سلطان کو معطل کر دیا گیا تھا۔ اعزاز کے مطابق پولیس میں آفتاب سلطان کو ایک ’نیک نام اور دیانتدار افسر‘ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

جب عام انتخابات کے بعد 2008 میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو نئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آفتاب سلطان کو ڈائریکٹر جنرل انٹیلیجنس بیورو کے عہدے پر تعینات کیا۔ تاہم جب سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو آصف زرداری سے متعلق مقدمات میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی پاداش میں نااہل قرار دیا تو ان کے بعد راجہ پرویز اشرف نے آفتاب سلطان کو ڈی جی آئی بی کے عہدے سے ہٹا دیا۔ آفتاب سلطان 2013 کے عام انتخابات کے وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ ان انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو نواز شریف نے آفتاب سلطان کو ڈی جی آئی بی کے عہدے پر دوبارہ فائز کر دیا۔ یوں یوسف رضا گیلانی کے بعد اب آفتاب سلطان ایک اور وزیراعظم کی نظر میں بھی اس عہدے کے لیے ’بہترین انتخاب‘ بنے۔

نئے چیئرمین نیب آفتاب سلطان ماضی میں عمران خان کی براہ راست تنقید کا نشانہ بھی رہ چکے ہیں۔ عمران خان کے دور میں جب نواز شریف سمیت ن لیگ کے دیگر سینیئر رہنماؤں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی تو نیب نے 2020 میں آفتاب سلطان کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور بدعنوانی (یعنی گاڑیوں کی غیرقانونی خرید و فروخت) کے الزام میں ایک ریفرنس دائر کرنے کی بھی منظوری دی تھی مگر بعدازاں نیب نے اپنا یہ ریفرنس واپس لے لیا تھا۔ 2017 کے دوران تحریک انصاف نے اپنے ایک پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک اعلامیے میں ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کو ’ریاست کے بجائے شریفوں کا وفادار‘ قرار دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’آفتاب سلطان نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات‘ کی ہے۔ ان الزامات کے جواب میں آفتاب سلطان نے بتایا تھا کہ نواز شریف سے ہونے والی یہ ملاقات چار ماہ قبل شیڈول کی گئی تھی اور یہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

سنہ 2014 میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ ’آفتاب سلطان نے بطور آئی بی چیف صحافیوں اور اینکرز میں پیسے تقسیم کیے تھے‘ تاہم اس الزام کی بھی آفتاب سلطان نے تردید کرتے ہوئے ان الزامات کو گمراہ کن قرار دیا تھا۔ ایک دفعہ پھر 2018 میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے آئی بی کو یہ کام سونپا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے امیدواروں کا چناؤ کرے۔ انھوں نے آفتاب سلطان کو ’شریفوں کے گینگ کا رُکن‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ آئی بی کے سربراہ یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کون سا امیدوار الیکشن جیت سکتا ہے۔ خیال رہے کہ ماضی میں آفتاب سلطان بطور ڈی جی آئی بی ایسے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔

Back to top button