مولانا کے انکار کے بعد عمران خان سیاسی طور پر یتیم کیوں ہو گئے؟

تحریک انصاف کی جانب سے حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کے لیے مولانا فضل الرحمان اس کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش بالاخر ناکام ہو گئی ہے جس کے بعد عمران خان سیاسی یتیمی کا شکار ہو گئے ہیں، چونکہ اب ان کے مخالفین پر کوئی پریشر باقی نہیں رہا لہذا خان کے جیل سے باہر آنے کے امکانات بھی ختم ہو گئے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے اب پارٹی رہنماوں کو بھی نہیں پتہ کہ کل کیا ہو گا۔ عمران خان جیل میں ہیں، ان کی نہ تو فوج سے اور نہ ہی حکومت سے کوئی بات چیت ہو رہی ہے۔ ابھی تک جو بیک چینل رابطے ہوئے اُن سے بھی کچھ نہیں نکل پایا۔ عمران خان کے ساتھیوں نے سڑکوں پر احتجاج کر کے بھی دیکھ لیا، بار بار اسلام آباد کی طرف مارچ سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا بلکہ پارٹی، اس کے رہنماوں اور ورکرز کیلئے مشکلات بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ نہ لوگ باہر نکل رہے ہیں، نہ کوئی بائیکاٹ کامیاب ہو رہا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے بھی عمران خان کی پاکستان کو ترسیلات زر کم سے کم بھیجنے کی اپیل پر کان نہیں دھرے، بلکہ الٹا ترسیلات پہلی بار زریکارڈ لیول تک پہنچ گئی ہیں۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ یوتھیوں کی امیدوں کے برعکس نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ بھینخان کی مدد کو نہیں آئے۔ آئی ایم ایف نے بھی ان کی جانب سے پاکستان کو قرض فراہم نہ کرنے کی اپیل کو لفٹ نہیں کرائی۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو پاکستانی عدلیہ سے توقعات تھیں لیکن اب اُدھر سے بھی کچھ ملنے کا کوئی چانس نہیں۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کچھ بھی خان کی توقعات کے مطابق نہیں ہو رہا اور نہ ہی انکی رہائی کا کوئی راستہ نکل رہا ہے۔ اوپر سے پارٹی ہے کہ تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے، رہنما ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ اب کریں تو کیا کریں؟
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کیے بغیر تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ گومگو کی صورتحال سے تو پارٹی کو کچھ نہیں ملنے والا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک عمران خان کی جانب سے فیصلہ نہیں کیا جاتا کہ کونسی حکمت عملی اپنانی ہے، تب تک تحریک انصاف ملکی سیاست میں اپنا اثر کھوتی رہے گی۔ اب نہ تو وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو اس سے کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اسکا کوئی خوف ہے۔ ایسے میں عمران کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے اداروں سے لڑائی جاری رکھنی ہے یا جنگ و جدل ختم کر کے اپنا مستقبل کا راستہ ہموار کرنا ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اگر ان آپشنز کو مزید واضح کیا جائے تو عمران خان کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ انقلاب کے لیے جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں یا مصالحت کا سفر شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو عمران خان کو اب مزید تاخیر کے بغیر کرنا ہوگا۔ باقی پارٹی قیادت کوئی حیثیت نہیں رکھتی لہذا یہ فیصلہ صرف اور صرف عمران خان نے ہی کرنا ہے۔ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ فوج سے لڑائی ڈال کر اس پر دباؤ ڈالیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کر دے۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ عمران کا بے لگام سوشل میڈیا بریگیڈ صبح و شام فوج اور اسکی قیادت کو لعن طعن کرتا رہے اور اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ مذاکرات پر امادہ ہو جائے۔ اگر انہوں نے لڑائی ہی لڑنی ہے تو پھر لڑائی لڑیں اور اس کیلئے انقلاب کی کوشش ہی واحد راستہ ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا انکی انقلاب لانے کی پہلی کوشش کامیاب ہوئی؟ 9 مئی کو کیا ہوا؟ کیا انہیں حقیقی آزادی مل گئی؟ کیا بار بار کے احتجاج کی کالز دینے کے باوجود جو توقعات تھیں اُنکے مطابق دس فیصد بھی لوگ باہر نکلے؟۔ ایسا اب تک تو نہیں ہوا۔ لیکن کیا آئندہ ہو پائے گا؟ یپ فیصلہ کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس دوسرا آپشن ہے مصالحت کا جس کیلئے پہلے انہیں فوج اور فوجی قیادت کے متعلق مکمل خاموشی اختیار کرنا پڑے گی، اس خاموشی کا مطلب عمران خان اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی خاموشی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو بھی فوری طور۔پر انہیں کچھ نہیں ملنے والا اور اس کا تحریک انصاف کے بہت سارے رہنماوں کو بھی علم ہے۔ پارٹی میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ گزشتہ دو تین سال کی پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف مقبول تو ضرور ہوئی لیکن اقتدار سے بہت دور ہو گئی۔ یہ بھی احساس ہے کہ اقتدار سے یہ دوری کوئی جلدی ختم ہونے والی نہیں لیکن اگر آئندہ دو تین سال بعد اپنے لیے حالات کو سیدھا کرنا ہے تو پھر مصالحت لازم ہے۔ جتنی جلدی مصالحت یعنی فوج سے لڑائی کے خاتمےکیلئے تحریک انصاف اور عمران خان قدم اُٹھائیں گے اُتنی جلدی پارٹی کی سیاست سے کنفیوژن کا خاتمہ ہو گا اور اُن کے سامنے اپنا مستقبل واضح ہوتا جائے گا۔ پارٹی کے اندر رہنماوں کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ نہ تو الیکشن کے نتائج بدلیں گے نہ ہی حکومت جانے والی ہے۔یعنی یہ نظام ایسے ہی چلے گا۔سوچ یہ ہے کہ اگر آئندہ انتخابات کیلئے رستہ ہموار کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اُس وقت پارٹی کا2024 کے انتخابات والا حال نہ ہو تو پھر مصالحت کا رستہ اختیار کریں اور نہ اپنے کسی رہنما اور نہ ہی سوشل میڈیا کوکھلی چھٹی دیں کہ اُن کے مرضی میں جو آئے وہ کرتے پھریں۔ فیصلہ عمران خان کو کرنا ہے!!