بھارت کی پاکستان کیخلاف فالس فلیگ آپریشنز کی مکروہ تاریخ سامنے آ گئی

پاکستان پر من گھڑت الزام تراشی بھارت کی پرانی روایت ہے جو ہائبرڈ وار سکرپٹ کا حصہ ہے۔ پاکستان کو بدنام کرنا، عوام کی توجہ ہٹا کر انتخابات چوری کرنا بھارت کا پرانا حربہ ہے ،پہلگام کی طرح بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی شرمناک داستان بہت طویل ہے۔جب بھارت نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ملک میں ہونے والی کسی بھی شرپسندانہ کارروائی کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور دنیا بھر میں اس کا ڈھنڈورا پیٹا تاہم بعد ازاں جب حقائق سامنے آئے تو بھارت کو منہ کی کھانا پڑی تاہم اس کے باوجود بھارت فالس فلیگ آپریش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پہلگام واقعہ بھی بھارتی فالس فلیگ آپریشنز کی ایک کڑی دکھائی دیتی ہے۔

مبصرین کے مطابق بھارت میں ہونے والی کسی بھی شرپسندانہ کارروائی کا ڈھونگ رچا کر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرنے کا سلسلہ نیا نہیں۔ بھارت نے 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ میں 68 افراد کی ہلاکت کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا تھا جبکہ بعد ازاں تحقیقات میں اس سانحے میں میجر رمیش سمیت ہندو انتہاپسندوں کا کردار سامنے آیا تھا ۔ 2008 میں بھارت نے ممبئی حملوں کو پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کیلئے استعمال کیا تاہم 2013 میں سابق سی بی آئی افسر ستیش ورما نے انکشاف کیا تھا کہ ممبئی حملے بھارتی حکومت نے خود کرائے تھے،ان کا کہناتھاکہ ممبئی حملوں کا مقصد انسدادِ دہشت گردی کے سخت قوانین پاس کروانا تھا۔31پریل 2018 کو کیرالہ میں سیاحوں پر حملہ کرایا گیا، بھارت نے اس کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا تاہم تحقیقات میں سامنے آیا کہ حملوں کا مقصد مدھیہ پردیش اور راجستھان کے انتخابات سے قبل سیاسی مقاصد کا حصول تھا ۔2019 میں پلوامہ کے حملے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ،جس کا الزام بھی مودی سرکار نے بغیر ثبوت فوراً پاکستان پر لگایا،تاہم بعد ازاں پلوامہ کے سابق گورنر نے پلوامہ حملے سازش کا پردہ چاک کرکے مودی سرکار کو بے نقاب کیا۔2023 میں مودی سرکار کی جانب سے راجوڑی میں 5 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالا گیا ، تاہم بعد ازاں راجوڑی میں حملہ بی جے پی کے اینٹی پاکستان اور اینٹی مسلم بیانیے کو مزید جواز دینے کی سازش نکلا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والا حملہ بھی فالس فلیگ آپریشن کا تسلسل ہے کیونکہ یہ حملہ عین اس وقت کیا گیا جب امریکی نائب صدر دورہ بھارت پر تھے ،اس حملے کا مقصد بھی پاکستان کو عالمی سطح پر دہشتگردی سے جوڑ کر بدنام کرنا ہے ۔دفاعی ماہرین کے مطابق شواہد ثابت کرتے ہیں کہ یہ حملے بھارت کے خود ساختہ ہیں تاکہ پاکستان مخالف بیانیہ تشکیل دیا جاسکے، تاہم بھارت کے ایک ہی طرز پر فالس فلیگ آپریشنز مکمل طور پر بے نقاب ہوچکے ہیں۔

دفاعی ماہرین کا کہناہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی کیلئے 7 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں،یہ تناسب ہر 7 شہریوں پر ایک سپاہی کا بنتا ہے ،سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سخت سکیورٹی حصار میں آخر دہشتگردانہ حملے کیسے ہو جاتے ہیں؟ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملے بھارت کے خود ساختہ ہیں تاکہ پاکستان مخالف بیانیہ تشکیل دے کر سیاسی مقاصد حاصل کئے جا سکیں ۔ دفاعی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ بھارت کے ایک ہی طرز پر کئے جانے والے فالس فلیگ آپریشنز مکمل طور پر بے نقاب ہوچکے ہیں۔اسی لئے عالمی قوتیں اب ایسے آپریشنز کو سنجیدہ لینے پر تیار نہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت کا فاشسٹ میڈیا بھی ان فالس فلیگ آپریشنز میں مودی سرکار کا ہمنو بن چکا ہے اسی لئے وہ کسی بھی ایسے واقعہ کے رونما ہوتے ہی فوری بغیر ثبوتوں کے پاکستان پرجھوٹے الزام دھرانا شروع کر دیتا ہے۔ مبصرین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ پہلگام حملہ بھارت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلگام حملہ مقبوضہ کشمیر کے 400 کلو میٹر اندر ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا اس وقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے کر پاکستان کیخلاف کو جواب دینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہے اگر بھارت کی جانب سے پہلگام واقعہ کی آڑ میں پاکستان پر کسی قسم کے حملے کی کوشش ہوئی تو 2019 میں ابھی نندن کو چائے پلا کر بھیجا تھا، اب بسکٹ بھی کھلائیں گے ۔آرمی چیف نے اوورسیز کنونشن میں واضح کیا تھا کہ پاکستان پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔  بھارت کی طرف سے اگر کوئی حملہ ہوا تو بالاکوٹ کی طرح اسے سبکی اٹھانا پڑے گی۔

دوسری جانب بھارت نے پہلگام واقعہ کی بنیاد پر سفارتی و آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے وہیں پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ کر کے انھیں 48گھنٹے میں بھارت چھوڑنےکی ہدایات جاری کر دی ہیں جبکہ واہگہ اور اٹاری بارڈرز کو بھی غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیا ہے  تاہم مبصرین کے مطابقیہ پہلا موقع نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے واہگہ اور اٹاری بارڈر بند کیا گیا ہو۔1947 سے اب تک کئی مواقع پر یہ سرحد مختلف اوقات میں وقتی یا مکمل طور پر بند کی جاتی رہی ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران یہ بارڈر مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا اور دونوں ممالک کے سفارتی و تجارتی روابط بھی معطل ہو گئے تھے۔ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران بھی آمدورفت پر پابندیاں عائد رہیں۔

دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں سرحدی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں۔نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بھی واہگہ پر سخت سیکیورٹی نافذ کر دی گئی اور آمدورفت محدود کر دی گئی۔ 2014 میں واہگہ بارڈر پر ایک خودکش بم دھماکہ ہوا، جس میں 60 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس واقعے کے بعد بھی کچھ دنوں کے لیے بارڈر کو بند کر دیا گیا تھا۔فروری 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ مزید بڑھا، جس کے نتیجے میں فضائی حدود کی بندش کے ساتھ ساتھ زمینی سرحد پر بھی سیکیورٹی سخت کر دی گئی۔مارچ 2020 میں کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث پاکستان نے احتیاطی تدابیر کے طور پر واہگہ بارڈر کو دو ہفتوں کے لیے بند کر دیاتھا۔اب 2025 کے پہلگام حملے کے بعد بھارت نے سفارتی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ سرحد بند کر دی  ہے۔

Back to top button