پاکستانیوں کی اکثریت آئندہ انتخابات سے لاتعلق کیوں ؟

پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ڈیڑھ ماہ سے بھی کم  وقت باقی رہ گیا ہے تاہم ابھی تک ملک میں الیکشن کے حوالے سے سیاسی جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا۔ ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق عوام شدید معاشی بحران سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے انہیں اس بات کی زیادہ فکر نہیں ہے کہ اگلی حکومت کون بنائے گا۔ انھیں بس اس بات سے سروکار ہے کہ آخر مہنگائی کا طوفان کب تھمے گا۔ فکر معاش کی وجہ سے عوام آئندہ انتخابات سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں مالیاتی سرگرمیوں کے مرکز کراچی میں بھی انتخابات سے قبل کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آرہی ، باوجود اس کے کہ اب یہ تقریباً یقینی بات ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات مزید مؤخر نہیں ہوں گے۔

آئندہ عام انتخابات سے متعلق عوام میں عدم دلچسپی کی متعدد وجوہات ہیں۔  پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ دیگر مسائل کے علاوہ، آسمان کو چھوتی مہنگائی کی وجہ سے عوام بنیادی اشیائے خور و نوش خریدنے اور بجلی کے بل ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ چونکہ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں پریشان ہیں، اس لیے انہیں اس بات کی فکر بہت کم ہے کہ اگلی حکومت کون بنائے گا۔

افغانستان کی سرحد سے ملحق بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی ملک کی سلامتی کے مسائل بھی ملکی عوام کے لیے بڑی تشویش اور پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد اتنا زیادہ ہے کہ یہ بات زیادہ توجہ طلب نہیں ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی پارٹی سب سے زیادہ سیٹیں جیتے گی بلکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن ایک جدید ریاست کے طور پر پاکستان کی بقاکا معاملہ بن گیا ہے۔

مبصرین کے مطابق آئندہ انتخابات میں ساری توجہ صرف ایک شخص عمران خان پر مرکوز ہے۔ وہ اس وقت بدعنوانی اور ریاستی رازوں کو افشا کرنے کے الزامات میں جیل میں ہیں۔گزشتہ برس پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹادیے جانے کے بعد عمران خان نے اپنی برطرفی کے لیے امریکہ اور بعض فوجی جرنیلوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے ایک موقع پر معاملے کو اتنا آگے بڑھا دیا تھا کہ ریاستی اداروں میں باہم تصادم کی صورت اور عوام کے کچھ حلقوں اور فوج کے درمیان براہ راست محاذ آرائی کی حالت بھی پیدا ہوگئی تھی۔ ایسے حالات کا ملک نے ماضی میں کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔بعض مبصرین کے مطابق عمران خان کی ‘انتشار پیدا کرنے کی سیاست‘ ایسے ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے، جو پہلے ہی معاشی بحران کے دہانے پر ہے اور جسے بہت سے سیاسی جغرافیائی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔

دوسری طرف تجزیہ کاروں کے مطابق’کسی بھی مقبول رہنما کی طرف سے پولرائزیشن کی سیاست کسی بھی ملک میں نقصان دہ ہوتی ہے، ”افسوس کی بات ہے کہ عمران خان نفرت اور اشتعال انگیز بیان بازی کی سیاست میں سبقت لے جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے سیاسی اور سماجی طورپر تکثیری ملک میں سیاسی پولرائزیشن دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ضروری اقدامات اور تعاون کو روک دیتی ہے۔‘‘عمران خان اپنی ”نفرت کی سیاست‘‘ کا شکار ہو چکے ہیں اور اب کوئی بھی ان کے حقوق کا دفاع نہیں کرنا چاہتا۔

مبصرین کے مطابق پاکستان میں طویل سیاسی عدم استحکام کا ممکنہ طور پر سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو ہوا ہے۔ حالانکہ عمران خان کے دور اقتدار کے دوران بھی معاشی اشاریے زیادہ مثبت نہیں تھے، تاہم انہیں اقتدار سے برطرف کرنے کے بعد معیشت اوندھے منہ گر پڑی تھی۔ مبصرین کے مطابق عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہونے والی حکومت ہی ان معاشی پریشانیوں کا ازالہ کر سکتی ہےکیونکہ معیشت اسی وقت ٹھیک ہو سکتی ہے جب پاکستان سیاسی طور پر مستحکم ہو۔‘‘سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس مرتبہ ووٹنگ کم ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے کم ہو۔اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے؟

Back to top button