ڈاکٹر قدیر خان کا حکومتی بے حسی پر افسوس کا اظہار


ہسپتال میں زیر علاج ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے کسی رکن کی جانب سے اپنی خیریت دریافت نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بابائے ایٹم بم کہلانے والےڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ نہ تو وزیراعظم اور نہ ہی ان کی کابینہ کے کسی رکن نے انکی صحت بارے دریافت کیا ہے حالانکہ وہ پچھلے کی رو سے صاحب فراش ہیں۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ پوری قوم ان کے لیےجلد صحتیابی کی دعائیں مانگ رہی ہے لیکن ایک بھی سرکاری عہدیدار نے ان کا حال پوچھنے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔
خیال رہے کہ 85 سالہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کووڈ 19 کے مثبت ٹیسٹ کے بعد 26 اگست کو خان ریسرچ لیبارٹریز ہسپتال میں داخل ہوئے جہاں سے انہیں راولپنڈی کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس سے قبل انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا کیونکہ انفیکشن کی وجہ سے اس کی صحت خراب ہوگئی تھی۔ تاہم اب کہا جا رہا ہے کہ ان کی صحت بہتر ہو رہی ہے اور انہیں جلد ہی گھر منتقل کرنے کا امکان ہے۔ملٹری ہسپتال کے کورونا وارڈ میں ان کی اہلیہ اور بیٹی ان کی تیمارداری کرر ہی ہیں۔ اپنی صحت بارے بتاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور انہیں باقاعدگی سے مصنوعی آکسیجن لینے کی ضرورت نہیں رہی۔ ایٹمی سائنسدان نے کہا کہ بعض اوقات ڈاکٹرز محسوس کرتے ہیں تو مجھے آکسیجن دیے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم 13 ستمبر کو مکمل معائنہ کرے گی جس کی بنیاد پر میرے گھر جانے یا ہسپتال میں رکنے کا فیصلہ ہوگا۔
یاد رہے کہ گذشتہ چند روز سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک جعلی خبر گردش کررہی تھیں۔تاہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہفتے کے روز سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’بعض ناشکرے‘ اور احسان فراموش لوگ میری موت کی جعلی خبریں چلا رہے ہیں لیکن میں اپنے چاہنے اور محبت کرنے والوں سمیت پوری قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں زندہ ہوں اور تیزی سے صحت یاب ہو رہا ہوں۔ اس سے قبل ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے ایک پیغام میں قوم سے اپیل کی تھی کہ ان کی صحت یابی کی دعا کریں لیکن اگر ان کی وفات ہو جائے تو گلی گلی ملک کے طول و عرض میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ اداکی جائے۔ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ان کی صحت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر کہا تھا فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کی خبر انتہائی پریشان کن ہے۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کو غیرقانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے الزام پر سابق پرویز مشرف کے دور میں چسرج شیٹ کرنے کے بعد اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا اور یہ نظر بندی آج بھی جاری ہے جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے لیکن انہیں تاحال ریلیف نہیں ملا۔۔

Back to top button