ڈیڈ لائن ختم ہونے پر حکومتی مشکلات میں اضافے کا امکان

عمران خان کے دباو پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو فوری انتخابات کروانے کے اعلان کے لیے دی گئی 20 مئی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد حکومتی مشکلات میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جس کے شواہد پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ایک جانب معاشی محاذ پر مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے اور ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کوئی بھی سخت اور مشکل فیصلے لے کر اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے باہمی مشاورت کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نئے انتخابات کی تاریخ دینے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
ادھر سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کو آئینی و سیاسی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد سے سابق وزیر اعظم عمران خان عوامی رابطہ مہم کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کر رہے ہیں جن میں وہ ریاستی اداروں پر الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومتی اراکین پر قائم مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملک کی عدلیہ کی جانب سے پی ٹی آئی اراکین کو ملنے والا ریلیف ہو، 63 اے کے تحت صدارتی ریفرنس پر عدالت عظمیٰ کی تشریح یا حکومت کی جانب سے تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس، ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا پر ایک بحث نے جنم لیا ہے کہ کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو عمران کی عوامی مقبولیت کا دباؤ محسوس ہو رہا ہے؟ اسی دباو کو محسوس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلی عدلیہ کو وارننگ دی ہے کہ وہ عمران خان کے دباؤ پر ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کرنے سے باز آجائے ورنہ اپوزیشن بھی دباو ڈالنا جانتی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کا کہنا ہے کہ عمران خان کو آئینی طریقے سے ہٹایا گیا اور اس وقت ملک کے جو اقتصادی حالات موجودہ حکومت کو ورثے میں ملے ہیں ان کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے ملک کے تمام آئینی ادارے اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ انھوں نے کہا کہ ابھی اس مخلوط حکومت کو آئے ہوئے چند ہفتے ہی ہوئے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں اور یہ امید رکھی جائے کہ ملک کی اقتصادی صورت حال بہتری کی طرف جائی گی۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کسی آئینی ادارے سے آئین سے ہٹ کر حکومت کی مدد کرنے کا نہیں کہہ رہی اور صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی بقا کے لیے آزادانہ فیصلے کرنے کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔نانھوں نے کہا کہ اداروں کی طرف سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ وہ کسی دباؤ میں آکر کوئی اقدامات کر رہے ہیں یا وہ انتظامی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں کو علم تھا کہ ملک کے معاشی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ملک کی بقا اور لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے انھیں نے اتنا بڑا سیاسی رسک لیا ہے کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ جیسے انھوں نے تحریک انصاف کی تمام تر ناکامیاں اپنے سر لے لی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب ملک میں غیر یقینی صورت حال ہو تو ایسے غیر معمولی حالات میں انھیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایسے جرات مندانہ فیصلے کرنے چاہیے جن سے ملک میں استحکام آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ادارے اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو بہتر ہو گا کہ حکومت سے الگ ہوکر انتخابات کی طرف چلا جائے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جتنی سپورٹ عمران خان کی حکومت کو دی ہے اس سے آدھی سپورٹ بھی اس حکومت کو مل جائے تو وہ حالات پر قابو پالیں گے۔ دوسری جانب اسلام آباد میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران کا دباؤ محسوس کرتے ہوئے حکومت سے فوری الیکشن کی تاریخ دینے کا مطالبہ کر رکھا ہے جسے نواز شریف اور آصف زرداری ماننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تین ماہ بعد الیکشن ہی کروانے تھے تو پھر عمران خان کی حکومت آنے کی کیا ضرورت تھی۔
ایسے میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران کی عوامی مقبولیت کے باعث فوج اور عدلیہ دباؤ محسوس کر رہے ہیں؟ تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ ’بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ اور بلخصوص سپریم کورٹ تحریک انصاف کے حالیہ جلسوں کے بعد دباؤ میں آئی ہے اور 63 اے کے تحت صدارتی ریفرنس پر جس طریقے سے رائے دی گئی آئینی ماہرین کے مطابق تو سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم ہی کر دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف کرپشن کیسز کا معاملہ عمران حان نے عوامی جلسوں میں اٹھایا تھا اور اس کے بعد سپریم کورٹ نے اس پر از خود نوٹس لیتے ہوئے اس پر کارروائی کا آغاز کر دیا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ بظاہر از خود نوٹس ایک جج کے نوٹ پر لیا گیا لیکن عوام میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ سارا معاملہ عمران خان کے مطالبے کے بعد شروع کیا گیا۔
حامد میر نے کہا کہ ’بظاہر اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے جلسوں سے متاثر نہیں ہوئی اور ان کا ابھی تک یہی موقف ہے کہ فوج اس معاملے میں نیوٹرل ہے اور اس کا سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ چونکہ فوج آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے اس لیے انھیں ان کی حمایت کرنی چاہیے۔
تجزیہ کار سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ ججز کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور وہ ان چیزوں کو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں جو کہ شاید عام آدمی اس نظر سے نہ دیکھ رہا ہو۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عدالتیں کسی کے دباؤ میں آکر فیصلے دیتی ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ عدالتوں کو فیصلہ دیتے ہوئے اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ کہیں آئین میں دیے گئے اپنے اختیارات سے تجاوز تو نہیں کر رہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی کی سیاسی لیڈر کے بارے میں فیصلہ دیتے ہوئے اس کو مقبولیت کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔