کراچی کی طالبات کے اغواء برائے تاوان کا سرغنہ پولیس والا نکلا

سندھ پولیس کا ایک سابق افسرکراچی کی دو طالبات کے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے سرغنہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ کراچی پولیس نے چار ماہ بعد دعا منگی اور بسمہ کے اغواء میں ملوث دو مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 30 نومبر 2019 کی شب اغواء ہونے والی دعا منگی اور 11 مئی 2019 کو کراچی ڈیفنس سے اغوا ہونے والی بسمہ نامی طالبہ کے اغوا میں ملوث دو ملزمان گرفتار کئے جا چکے ہیں جبکہ اغواء کار گروہ کے سرغنہ سابق سندھ پولیس آفیسرآغا منصور سمیت 3 ملزمان تاحال مفرور ہیں جنھیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
کراچی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ برس ڈیفنس سے دو طالبات کے اغوا میں ملوث 2 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے جن کی شناخت مظفر اور زوہیب کے نام سے ہوئی ہے اور ان کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ دونوں ملزمان جرائم پیشہ ہیں اور کراچی شہر میں گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں بھی ملوث ہیں جبکہ ایک پولیس افسر ان کا سرغنہ ہے جس کو محکمہ سے پہلے ہی فارغ کردیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور گواہوں کے بیانات کی مدد سے دونوں ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیابی ملی۔ ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن کے مطابق اغوا کاروں نے ایک سال قبل کلفٹن بلاک 2 میں فلیٹ کرایہ پر لیا تھا جہاں پر دونوں مغوی لڑکیوں کو رکھا گیا تھا۔ دونوں واقعات میں 5 ملزمان ملوث تھے اور ان میں سے 3 اب بھی مفرور ہیں۔ اغوا کی ان کارروائیوں کے مرکزی کردار ایک سابق پولیس آفیسر آغا منصور تھے۔جو شہر میں دیگر اغوا برائے تاوان کے واقعات میں ملوث ہیں۔ اینٹی کار لفٹنگ سیل کے ذرائع کا کہنا تھا کہ آغا منصور اینٹی کار لفٹنگ سیل میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر تھے اور انہیں 10 سے 12 سال قبل مشکوک کردار کی وجہ سے پولیس کی سروس سے برخاست کردیا گیا تھا۔
آغا منصور بنیادی طور پر شکارپور سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ یاد رہے کہ 11 مئی 2019 کو ڈیفنس میں کار سوار مسلح افراد نے بسمہ نامی طالبہ کو ان کے گھر کے باہر سے اغوا کیا تھا اور وہ تاوان کی ادائیگی پر ایک ہفتے بعد گھر واپس پہنچی تھیں۔
19 سالہ طالبہ دعا منگی کو 30 نومبر کی رات 10 بجے ڈیفنس فیز 6 کے علاقے بڑا بخاری کے چائے خانہ ریسٹورنٹ کے باہر سے اغوا کیا گیا تھا۔ واردات کے دوران مزاحمت پر ملزمان نے فائرنگ کرکے دعا منگی کے ساتھی حارث سومرو کو گردن پر گولی مار کر زخمی کردیا تھا جس کے بعد سے وہ مفلوج ہوچکا ہے اور اب ویل چیئر پر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔
رہائی کے بعد دعا نے اپنے خاندان کو بتایا تھا کہ انہیں سات روز تک ہاتھ اور پیر میں زنجیر باندھ کر رکھا گیا جبکہ آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی تاہم ان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا، ملزمان آپس میں اردو زبان میں بات کرتے تھے اور وہ پیشہ ور مجرم لگتے تھے۔اغوا کاروں نے دعا منگی کے خاندان سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا تھا اور بھاری تاوان طلب کیا، خاندان کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ دعا کی بہن نے واٹس ایپ کال پر ہی ملزمان کو اپنا گھر اورعلاقہ دکھایا اور بتایا کہ وہ مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بعد دو کروڑ سے کم ہو کر معاملہ 20 لاکھ روپے تاوان تک آیا۔ بعد ازاں دعا منگی بعد تاوان کی ادائیگی کے بعد دسمبر میں گھر واپس آئی تھیں۔ ملزمان نے دعا منگی کو کہا تھا کہ ہم تمہارے لباس اور انداز سے غلطی فہمی کا شکار ہوئے کہ کسی امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔
واضح رہے کہ ڈیفنس میں گزشتہ برس مئی اور نومبر میں طالبات کو اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد شہریوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ کراچی کی سڑکوں اور سندھ اسمبلی کے ایوانوں میں دعا منگی کی بازیابی کے لیے احتجاج کیے گئے جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر دو روز دعا منگی ٹاپ ٹرینڈ رہا تھا۔ دُعا منگی قانون کی طالبہ ہیں اور کراچی کے معروف جناح ہسپتال کے پلاسٹک سرجری کے سابق اسسٹنٹ پروفیسر اور میڈیکل آفیسر ڈاکٹر نثار احمد منگی کی بیٹی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button