نہریں بنانے پر فوج کیخلاف بھڑنے والے کل فوج کی مدد کیوں مانگیں گے؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ آج نئی نہریں بنانے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے والے چند مہینے بعد اگست میں بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے پانی میں غوطے کھاتے ہوئے اسی فوج سے مدد کی اپیل کر رہے ہوں گے جس پر یہ ابھی نہریں بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اور اس کی بنیاد پر جنگیں ہوا کریں گی۔
اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دنیا میں میٹھے پانی کے سب سے بڑے ذرائع قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں‘ دونوں قطبوں پر لاکھوں میل لمبے گلیشیئرز ہیں‘ سردیوں میں ان پر برفیں پڑتی ہیں اور گرمیوں میں یہ گلیشیئرز تھوڑے تھوڑے پگھل کر زیر زمین پانی میں بھی اضافہ کرتے ہیں اور دریاؤں میں بھی پانی بڑھاتے ہیں‘ پانی کا تیسرا بڑا ذریعہ ہمالیہ‘ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے ہیں‘ یہ تینوں سلسلے خوش قسمتی سے پاکستان میں جگلوٹ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں‘ قدرت کے اس عظیم جغرافیائی معجزے کی وجہ سے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں‘ بیافو Biafo نامی گلیشیئر پاکستان کا طویل ترین گلیشیئر ہے‘ جس کی لمبائی 67 کلومیٹر ہے اور یہ گلگت بلتستان میں قراقرم کے سلسلے میں واقع ہے۔
جاوید بتاتے ہیں کیا دریائے سندھ ہزاروں سال سے ان گلیشیئرز سے پانی لیتا ہے اور یہ پاکستان کی لائف لائین ہے‘ دریائے سندھ کے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ سیاچن گلیشیئر ہے‘ یہ 22 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے‘ اس پر 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں‘ سیاچن کی برفیں 2000 تک سخت ترین ہوتی تھیں لیکن فوجوں کی موجودگی‘ مسلسل گولہ باری اوربرف پر چولہے جلانے‘ کیمپس بنانے اور ہیلی کاپٹروں اوربھاری مشینری کی آمدورفت کی وجہ سے گلیشیئر نرم پڑ رہا ہے۔ وہاں اب باقاعدہ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب بن رہے ہیں اور گلیشیئر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے، یہاں تک کہ 2012ء میںگیاری کے مقام پر برف کا بہت بڑا تودہ فوجی کیمپ پر گر گیا اور 140 جوان شہید ہو گئے‘ سیاچن گکیشئہر بھی پاکستان کے لیے پانی کا بہت بڑا ذریعہ ہے‘ ہمیں فوری طور پر اسے بھی بچانا ہو گا اور اس کے لیے سیاچن کی جنگ روکنا ہوگی۔
جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ پانی آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا جس کی بنیاد پر جنگیں ہوں گی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا شمار پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے‘ ہم نے اگر خشک سالی سے بچنا ہے تو پھر ہمیں جنگی پیمانے پر پانی بچانے کی حکمت عملی بنانا ہو گی لیکن آپ المیہ دیکھیے‘ ہم سال کے آٹھ ماہ پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور مون سون کے چار مہینے ہم سیلابوں کا لقمہ بنتے ہیں یعنی ہم پانی کی کمی اور زیادتی دونوں کا شکار ہیں‘اب سوال یہ ہے ہم اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ہم پانی کے ذخائر کیوں نہیں بناتے اور ہم سیلاب کے پانی کو محفوظ کیوں نہیں کرتے؟یہ بلین ڈالر کا سوال ہے‘ہمیں چاہیے ہم فوری طور پر آبی گزر گاہوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز‘ تالاب اور خشک نہریں بنائیں تاکہ سیلاب کے دنوں میں پانی ان ذخائر کی طرف موڑ دیاجائے‘ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی اور خشک اور ویران علاقے بھی کاشت کے قابل ہو جائیں گے۔
سینیئر صحافی کے مطابق ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مدت سے نئی نہروں کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن سیاسی افراتفری کی وجہ سے حکومتیں ان پر توجہ نہیں دے سکیں‘ 2023 میں آرمی چیف نے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا‘ اس کے تحت پاکستان میں چھ نہریں بن رہی ہیں اور ان نہروں سے ہزاروں میل کا علاقہ کاشت کے قابل بن رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی اب سیاست کی نذر ہو رہا ہے‘ سندھ میں احتجاج شروع ہو گیا ہے‘ لوگ سڑکیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں‘ ان کا کہنا ہے پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے‘آپ اندازہ کریں انگریز نے 1892 سے 1917 تک موجودہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنا دیا لیکن ہم 2025 میں ایک نہر کے لیے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر بیٹھے ہیں‘ ملک ایک طرف پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور دوسری طرف ہم نہریں روکنے کے لیے سڑکیں بند کر رہے ہیں‘کیا یہ عقل مندی ہے؟
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ آپ تین ماہ بعد تماشا دیکھ لیجیے گا۔ جولائی اگست میں بارشیں شروع ہوں گی اور نئی نہریں بنانے کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سیلاب میں غوطے کھاتے ہوئے اسی فوج سے مدد کی اپیل کر رہے ہوں گے جس پر یہ نہریں بنانے کا الزام لگا رہے ہیں‘ یہ کھیل آخر کب تک چلے گا‘ ہم کب تک بنیادی ایشوز پر سیاست کرتے رہیں گے؟ پانی‘ نہریں اور ڈیمز ماہرین کے کام ہیں‘ عوام انکی حساسیت نہیں سمجھ سکتے چناںچہ حکومتوں کو چاہیے کہ فوری طور پر ماہرین اکٹھے کریں‘ ملک کے لیے ایک جامع واٹر پالیسی بنائیں اور ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تاکہ ہم کم از کم پانی کے مسئلے سے تو نکل سکیں‘ پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بلوچستان اور کشمیر یہ سب پاکستان ہیں‘ کسی ایک صوبے کا فائدہ یا نقصان پورے ملک کا نقصان یا فائدہ ہو گا۔