اے این پی باچا خان اور ولی خان کے نظریات سے کیوں ہٹ گئی؟

ایک زمانے میں خیبرپختونخوا میں سب سے بڑی سیاسی قوت سمجھی جانے والی اے این پی کے کنفیوژڈ طرز سیاست کے باعث اب باچا خان اور ولی خان کی جماعت سے محبت کرنے والے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ باچا خان اور ولی خان اصول پرستی کی جو وراثت چھوڑ کر گئے تھے، اب اس پر کارپوریٹ سیاست اور آمرانہ منڈیوں میں صبح و شام بولیاں لگنے لگی ہیں۔

اے این پی سے ناراض رہنما کہتے ہیں کہ پارٹی کا نام اور نسب یقیناً وہی ہے جس پر تاریخ رشک کرتی ہے لیکن موجودہ اے این پی اپنے اسلاف اور سیاسی روایت کے منہ زور دریا سے اب بہت دور صرف ان پگڈنڈیوں کو سیراب کرنے پر لگی ہوئی ہے جس پر ق لیگ اور تحریک انصاف جیسی سیاست کی نرسریاں کاشت کی جاتی ہیں۔

ناقدین تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ مزاحمتی سیاست کی میراث رکھنے والی اے این پی اب بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی باپ پارٹی کی اتحادی ہے جبکہ دوسری طرف مرکز میں یہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھتی ہے۔ ناقدین یاد دلاتے ہیں کہ ولی خان نے 35 برس قبل کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو شکست تب ہوگی جب پنجاب اپنی لیڈر شپ پیدا کر کے مزاحمت شروع کرے گا۔

آج پنجابی نواز شریف اور اس کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی شکل میں ولی خان کی پیشگوئی یقینا صحیح ثابت ہوئی لیکن اے این پی کے وابستگان کو یہ رنج ضرور ہےکہ تب ولی خان کو کیا معلوم تھا کہ جب پنجاب مزاحمت کےلئے اٹھ کھڑا ہوگا تو ولی خان کے سیاسی نظریئے اور جدوجہد کے حقیقی وارث کون بنیں گے اور اس کے خونی وارث اور اسکی اپنی پارٹی کا کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟

باچا خان کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چارسدہ کے ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھنے اور حق گوئی کے پرچارک خان عبد الغفار خان تمام عمر کھڈی میں بنے معمولی اور کم قیمت کھدر کے کپڑے پہنتے۔ وہ عموما پیاز یا لسی کے ساتھ روٹی کھا کر گزارہ کرتے تھے۔

تانگوں میں سفر کرتے اور اپنے خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنوں کے ہاں قیام کیا کرتے۔ لیکن دوسری طرف اس سادگی اور ایمانداری کے باوجود بھی اپنے موقف پر ایسا ڈٹے رہتے کہ نہ انگریزوں کے سامنے سر جھکایا اور نہ ہی ان کے “وارثوں” کے سامنے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 30 سال سے زائد عرصہ مختلف جیلوں میں گزارا لیکن ان مشکلات کے باوجود سیاسی حوالے سے وہ بلا شبہ پختون تاریخ کے سب مقبول اور معتبر سیاسی رہنما ٹھہرے۔

لاہور:نامعلوم افراد کی فائرنگ سے نجی ٹی وی کا رپورٹر جاں‌ بحق

باچا خان کی حق گوئی اور پا مردی کی معتبر گواہیاں ان کے سیاسی حریف خود تاریخ کو سونپ چکے ہیں۔ باچا خان کے تین بیٹوں میں سے ایک کا نام عبد الولی خان تھا جو عین جوانی میں اپنے والد کی دلیرانہ سیاست کا علم تھامنے آگے بڑھا، لیکن ایوبی مارشل لاء نے حسب معمول اور حسب روایت ان پر بھی جیلوں اور زندانوں کے دروازے کھول دیئے۔ یہ سلسلہ جنرل ضیاء تک تسلسل کے ساتھ چلتا رہا لیکن ولی خان کخود کو ایک جمہوریت پسند اور بہادر باپ کا بیٹا ثابت کرتا رہا۔

ایوبی مارشل لاء کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان اور دوسرے سیاسی لیڈروں کے ساتھ مل کر آمریت کے خلاف تحریک چلانا اور قید و بند کاٹنا ہو بھٹو کے غیر جمہوری اقدامات کے خلاف ڈٹ جانا اور حیدرآباد ٹریبونل کا سامنا کرنا ہو یا ضیائی مارشل لاء کے خلاف ایم آر ڈی تحریک منظم کرنا اور جمہوریت کی بحالی کے لئے طاقتور عوامی تحریک چلانا اور طویل قید و بند کاٹنا ہو، ولی خان کبھی پیچھے نظر نہیں آئے۔ یہی اس گھرانے کی وہ ادا تھی جس پر پختونوں کی اکثریت مر مٹی۔

لیکن چبھتا ہوا سوال یہ ہے کہ اس درخشندہ تاریخ کی حامل جماعت اے این پی آج کہاں اور کس رخ کھڑی ہے؟
سوال یہ بھی ہےکہ موجودہ اے این پی کی اصل قیادت کس کے پاس ہے؟ ایمل ولی خان یا حیدر ہوتی کے پاس؟ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا یے کہ بلور خاندان کو کس نے اور کیوں فراموشی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے؟ ملک کے سب سے سینیئر اور تجربہ کار سیاستدان غلام احمد بلور پر دوسروں کو ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟ اے این پی کن “مجبوریوں” کی وجہ سے تحریک انصاف جیسی سیاست کے راستے پر چل پڑی۔

حیرت انگیز طور پر پی ڈی ایم سے اے این پی نے غیر فطری اور غیر روایتی انداز میں کنارہ کشی کیوں اختیار کر لی۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس جماعت کا توانا ورکر پہلے جیسا پر جوش اور توانا کردار کا حامل کیوں نہیں رہا۔

خوفناک آمریتوں کے سامنے ہمیشہ ڈٹی رہنے والی اے این پی لیڈران پر ایسا وقت کیونکر آیا کہ وہ نیب جیسے بدنام زمانہ ادارے کے سامنے سرنگوں دکھائی دیئے؟ اور اب جبکہ تاریخ جمہوریت اور آمریت کے مابین واضح لکیر کھینچ چکی اور آخری جنگ کا فیصلہ کن معرکہ برپا ہے تو جمہوری لشکر کا روایتی علمبردار گھرانہ مصلحت کی بکل اوڑھے خوف اور سراسیمگی کا شکار کیوں ہے؟

ناقدین کا کہنا ہے کہ خلاف معمول اے این پی لیڈر شپ صف اول میں کھڑا ہونے اور قیادت کرنے کی بجائے فرار کے راستے پر سرپٹ بھاگتی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ رنج اور ملال تو اس بات کا ھے کہ باچا خان اور ولی خان اصول پرستی کی جو وراثت چھوڑ کر گئے تھے اس پر کارپوریٹ سیاست اور آمرانہ منڈیوں میں صبح و شام بولیاں لگنے لگی ہیں۔

Back to top button