منحرف PTI اراکین کو ووٹ ڈالنے سے کیوں نہیں روکا جا سکتا؟

تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والے وزیراعظم عمران خان نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے منحرف اراکین قومی اسمبلی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کو پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے سے روکا جا سکے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 2012 میں آئین کا حصہ بنائے جانے کے بعد سے اب تک فلور کراسنگ کی شق 63 اے کے تحت الیکشن کمیشن نے کسی ایک بھی منحرف رکن اسمبلی کو نااہل قرار نہیں دیا۔
ویسے بھی جن منحرف اراکین نے اپنی پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیے وہ شمار کیے گے
اور ان کے خلاف کارروائی ووٹ ڈالنے کے بعد شروع ہوئی، نہ کہ ووٹ ڈالنے سے پہلے، جیسا کہ اب کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم کے خلاف جمع کروائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کے تناظر میں اسلام آباد میں واقع سندھ ہاؤس میں حکومتی جماعت تحریکِ انصاف کے 20 سے زیادہ ارکانِ قومی اسمبلی کی موجودگی نے بعد ایک مرتبہ پھر فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں بحث کو جنم دیا ہے۔ ان ارکان میں شامل تحریکِ انصاف کے جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے راجہ ریاض نے کہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر وہ ‘اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے، ہمارا خان صاحب سے اختلاف ہے اس لیے ووٹ اپنے ضمیر کے مطابق دیں گے’۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے کسی رکن کو اپنے خلاف ووٹ دینے سے کیسے روک سکتی ہے؟ ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا سپیکر کسی ووٹ کو گننے سے انکار کر سکتا ہے؟
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں پارٹی کی اندرونی بغاوت کے بعد کپتان نے باغی اراکین کو اپنے خلاف ووٹ دینے سے روکنے کے لئے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں رائے لی جائے گی کہ کیا کسی رکن اسمبلی کو آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے پہلے بھی نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں صرف ان منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی ہوئی تھی جنہوں نے بغاوت کرتے ہوئے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ 2021 میں فلور کراسنگ کے خلاف شق کو آئین کا حصہ بنانے کے باوجود آج تک کسی بھی اسمبلی رکن کو الیکشن کمیشن کے ذریعے ڈی سیٹ نہیں کرایا جا سکا۔ تاہم پارٹی چھوڑنے والے ارکان اس آئینی خلاف ورزی کے بعد ڈی سیٹ کیے جانے سے پہلے ہی مستعفی ہو گے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کا بھی یہی منصوبہ ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے کے فورا بعد اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ یوں نہ صرف تحریک انصاف ان منحرف ارکان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گی بلکہ ایوان میں تحریک انصاف کے نشان پر منتخب ہونے والے ارکان کی تعداد بھی کم ہو جائے ہے۔
یاد رہے کہ سال 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں جب قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج سامنے آئے تو اس وقت کی کنگز پارٹی یعنی مسلم لیگ ق اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ حکومت بنا سکے۔ ایسے میں تب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کے ایک دھڑے کو اپنے ساتھ ملایا جس کا نام پیپلزپارٹی پیٹریاٹ رکھا گیا۔ راو سکندر اقبال کی قیادت میں اس گروپ میں 20 کے ارکان اسمبلی تھے جو جیتے تو پیپلز پاررٹی کے ٹکٹ اور انتخابی نشان پر تھے لیکن انھوں نے اپنی پارٹی کا ساتھ دینے کے بجائے مشرف کی حمایت کا اعلان کیا۔ حالیہ پارلیمانی تاریخ میں فلور کراسنگ کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا لیکن تب مشرف کی حکومت نے فلور کراسنگ کا قانون معطل رکھا ہوا تھا اس لیے پیپلز پارٹی اپنے باغی اراکین کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکی۔
2008 پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور آئینی اصلاحات کا فیصلہ ہوا تو 2010 میں آئین میں آرٹیکل 63 اے کا اضافہ کیا گیا۔ اس آرٹیکل کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کی رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں۔
ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر سپیکر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کر سکتے ہیں اور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا۔ سپیکر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفر شدہ ہی سمجھا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو 30 دن میں اس پر فیصلہ کرے گا۔
انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر دی جائے گی اور اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
تاہم 2010 سے اب تک درجنوں ارکان قومی اسمبلی نے پارٹیاں بدلیں اور وفاداریاں تبدیل کیں لیکن اس قانون کے تحت آج تک کسی ایک بھی رکن کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں آج تک جتنے بھی ارکان نے آئین کے اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کی، وہ پارٹی کی جانب سے ان کے خلاف قانونی کارروائی سے پہلے ایوان سے مستعفی ہو جاتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا تحریکِ انصاف اپنے اراکین کو عدم اعتماد کا ووٹ ڈالنے سے روک سکتی ہے؟سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے مطابق اس کا سادہ سا جواب ہے کہ پارٹی ایسا نہیں کرسکتی۔ انھوں نے کہا کہ ‘پی ٹی آئی اپنے اراکین کو نہیں روک سکتی۔ اور اگر فرض کریں کہ روک لیں اور نا اہل کرنے کا ریفرنس بھیج بھی دیں تو پی ٹی آئی کو اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے حق میں اعتماد کے لیے مزید ووٹ درکار ہونگے۔’ تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نااہل کیے گئے ارکان کو نکالنے سے وزیرِ اعظم کے حق میں اعتماد کے لیے ووٹ کم پڑ سکتے ہیں؟ عرفان قادر نے کہا کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔ ‘اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہے۔ اگر وہ اس اکثریت میں سے بیشتر کو نکال دیتی ہے، یا ان کا ووٹ نہیں گنتی، تو پھر اعتماد بحال کرنے کے لیے مزید ووٹ کہاں سے لائی گی؟’
Why can’t deviant PTI members be prevented from voting? Urdu