کیا سراج الحق نے واقعی منور حسن کو دھاندلی سے ہرایا

جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بیٹے حسین فاروق مودودی نے یہ ہوشربا الزام عائد کیا ہے کہ 2014 میں جماعت کے سازشی عناصر نے سید منور حسن کو مائنس ون فارمولے کے تحت امارت سے فارغ کرکے سینیٹر سراج الحق کو دھاندلی کے ذریعے نیا امیر منتخب کروایا۔ الیکشن پراسس پر منور حسن کے تحفظات کے اظہار کے باوجود سراج الحق نے ووٹ چوری کی تحقیقات نہ کروائیں اور منصب امارت پر متمکن ہوگئے۔
حیسن فاروق نے روزنامہ جنگ کے لئے اپنے خصوصی مضمون میں لکھا ہے کہ اپنی تمام تر مسلمہ خصوصیات کے باوجود سید منور حسن مرحوم دوبارہ امیر جماعت کا الیکشن دھاندلی کی وجہ سے ہار گئے تھے۔ واضح رہے کہ سابق روایات کے مطابق موجودہ امیراپنی صحت اور دیگر وجوہات کی بنا پرمعذرت نہ کرے اور اس کا نام امرا کی لسٹ سے نہ نکالا جائے تو وہ امیر منتخب ہوتا رہتا ہے۔ البتہ خود کوئی رکن اپنا نام امارت کیلئے پیش کرسکتا ہے اور نہ جماعت کے دستور کے مطابق کنوینسنگ ہوسکتی ہے۔ ووٹ نہایت رازداری سے دیے جاتے ہیں۔ اسی روایت کے مطابق سراج الحق دوبارہ امیر منتخب ہوئے اور خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ وہ آئندہ بھی تاحیات منتخب ہوتے رہیں گے۔ سید حسین فاروق مودودی کے بقول منور حسن کے دوبارہ امیر منتخب نہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ ارکان جماعت نے ان کے فوج کے حوالے سے کچھ متنازعہ بیانات کی وجہ سے انہیں دوبارہ امیر جماعت ہونے کے قابل نہ سمجھا ہو۔دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی بیرونی دباؤ کے باعث الیکشن کے نتائج تبدیل کر دیئے گئے ہوں۔ اس ممکنہ دھاندلی کے بارے میں منور حسن نے اپنی الوداعی تقریر میں اشارہ بھی دیا کہ امارت کے الیکشن میں پانچ ہزار ووٹ غائب ہوئے جس کی نظیر جماعت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کاکہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس ووٹ ڈاک میں گم ہو جائیں تو ہو جائیں لیکن اکٹھے ہی پانچ ہزار ووٹوں کا غائب ہو جانا ایک معمہ تھا جس نے الیکشن کے نتائج بدل دیے۔ انہوں نے اس کی تحقیق کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کی اس الوداری تقریب میں متعدد ارکان جماعت، صحافی اور ہمدرد موجود تھے جو اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ حسین فاروق نے اس حوالے سے سولاات اٹھائے ہیں کہ جماعت اسلامی جیسی نیک اور بااصول تحریک میں ایسی غیراخلاقی حرکت کیوں کی گئی۔؟ دوسرا منصورہ میں موجود کون سے لوگ ہیں جو اس قبیح حرکت کےمرتکب ہوئے؟ ان معاملات کو کریدتے ہوئے بانی جماعت کے صاحبزادے حسین فاروق نے یہ توجیہہ بھی پیش کی کہ منورحسن نے دوران امارت اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جو پاکستانی فوجی امریکا کی جنگ لڑ رہے ہیں انکو شہید کہنا درست نہیں کیونکہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ چنانچہ اس بیان کے بعد ملک میں ایک طوفان برپا ہوگیا تھا، کچھ ارکان جماعت بھی ناراض ہوئے اور مختلف حلقوں کی طرف سے شدید دباؤ پڑا کہ امیر جماعت معافی مانگیں یا ان کو امارت سے علیحدہ کر دیا جائے۔ اس پر ایک طرف تو مرحوم اپنے اصولی موقف پر ڈٹ گئے اور دوسری طرف جماعت کے دستور کے مطابق انہیں امارت سے الگ کرنا ممکن بھی نہ تھا۔
مارچ 2014ء میں امیرجماعت اسلامی کے انتخاب سے قبل غالبا ًاسی طرح دباؤ ڈالا گیا اور واضح پیغام دیا گیا کہ منور حسن کا امیر بننا ہمیں منظور نہیں۔ اس الیکشن کے انچارج حفیظ احمد کے مطابق انہیں اس دھاندلی پرآمادہ کرنے کیلئے اسلامک پبلیکیشنز کا منیجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا۔ انتخاب کے نتیجے کا اعلان تو دباؤ کے مطابق کر دیا گیا مگر اس غلطی کے ذہنی دباؤ کے باعث حفیظ صاحب صرف ایک ہفتہ مزید زندہ رہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان تینوں منور حسن، حفیظ احمد اور عبدالوحید سلیمانی میں سے کوئی بھی اس دنیا میں باقی نہیں رہا۔
حسین فاروق نے اعتراض اٹھایا ہے کہ اس دھاندلی کے علم میں آجانے کے بعد سراج الحق کو پانچ ہزار ووٹوں کی گمشدگی کی تحقیقات سے قبل امارت کا حلف نہیں اٹھانا چاہئے تھا جبکہ یہ مطالبہ منور حسن صاحب نے انکی موجودگی میں اپنے الوداعی خطاب میں کیا تھا۔ حسین فاروق لکھتے ہیں کہ میری اطلاع کے مطابق 2014ء میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے مرکز جماعت میں ذمہ داران کو تبدیل کرنا چاہا تو انکے اس عمل کو قبول نہیں کیا گیا بلکہ کہا گیا کہ ابھی وہ جماعت کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد مجوزہ تبدیلیاں کر لیں۔ مولانا مودودی کے صاحبزادے کا کہنا ہے کہ منور حسن کے ساتھ جو زیادتی ہوئی اسکے قصور وار تمام لوگوں کو اللہ کےحضور جوابدہ ہونا پڑے گا۔
تاہم حسین فاروق مودودی کے الزامات کے جواب میں نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا کہنا ہے کہ یہ مفروضوں پر مبنی کہانی ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں۔ جماعت اسلامی کے طریقہ انتخاب سے مکمل آگاہی کے باوجود حسین فاروق نے جان بوجھ کر یہ ابہام ڈالا، یہ ایسا کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں تھا۔ پراچہ نے کہا کہ ہر انتخاب میں ایک تعداد اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کر پاتی اور اس کی وجہ بعض ارکان جماعت کی بیرون ملک یا بیرون ضلع منتقلی، بیماری، معذوری، استثنیٰ، دور دراز علاقے میں رہائش ہوتی ہے۔ اسی طرح خواتین ووٹر کی بھی ایک تعداد ہے ہر انتخاب میں 10سے 15فیصد لوگ ووٹ استعمال نہیں کر پاتے ملکی انتخابات کی شرح ووٹ کے مقابلے میں جماعت اسلامی میں ووٹ استعمال کرنے والوں کی شرح 85فیصدسے زیادہ ہے جو بہت اچھی ہے۔ فرید پراچہ نے کہا کہ میں حسین فاروق مودودی کے بارےمیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ اپنے والد گرامی کی بنائی ہوئی جماعت اسلامی میں شامل نہ ہوئے۔ اس وقت بھی نہیں کہ جب سید مودودی ہی جماعت کے امیر تھے۔ اب وہ اگر اس جماعت کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم بےبنیاد الزامات اور بےسروپا شکوک و شبہات سے اسے نقصان تو نہ پہنچائیں۔