کیا عمران خان کا بُرا وقت شروع ہونے والا ہے؟

قومی احتساب بیورو یعنی نیب ترمیمی آرڈیننس کی منظوری کے بعد اب احتساب ادارے کو یہ اختیار دوبارہ مل گیا ہے کہ وہ انکوائری کے دوران کسی بھی ملزم کو گرفتار کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ ترمیم کے تحت ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت 14 روز سے بڑھا کر 30 دن کردی گئی ہے جو کہ 90روز تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ نیب قانون میں نئی ترامیم کی منظوری کے بعد آنے والے دنوں میں عمران خان اینڈ کمپنی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے عمران خان جلد مکافات عمل کا شکار ہونے والے ہیں۔
نیب کے قانون میں ترمیم ایسے وقت میں لائی گئی ہے جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بیگم توشہ خانہ سمیت متعدد الزامات میں نیب کی تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔اگرچہ حکومت نے اس قانون میں تبدیلی لانے کی وضاحت نہیں کی تاہم خیال ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ اس قانون کے باعث عمران خان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ موجودہ اتحادی حکومت ہی گزشتہ سال پارلیمنٹ کے ذریعے نیب قانون میں ترامیم لائی تھی اور ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت 90 روز سے کم کر کے 14 روز کی تھی۔ اس کے علاوہ انکوائری کے دوران گرفتاری کے اختیار کو ختم کرکے اسے کچھ شرائط کے ساتھ تحقیقات کے مرحلے میں دیا گیا تھا۔ عمران خان نے نیب کی ان ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلینج کررکھا ہے۔واضح رہے کی نیب کا قانون پاکستان میں ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے اور حالیہ ترمیم کے بعد یہ دوبارہ سے خبروں میں ہے۔نیب قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ ترامیم نیب کو دوبارہ سے لامحدود اختیارات دیتی ہیں جس کا مقصد احتساب ادارے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا دکھائی دیتا ہے۔
نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حکومت نے اس صدارتی حکم نامے کے ذریعے گزشتہ سال پارلیمنٹ کے ذریعے نیب قانون میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس کر دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں راتوں رات آرڈیننس کے ذریعے نیب قانون میں تبدیلی بدنیتی ظاہر کرتی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نیب کو دوبارہ سے سیاسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اب نیب کو الیکشن کے عمل میں کھلی چھوٹ حاصل ہو گی اور سیاسی حریفوں کو محض الزامات کی بنیاد پر گرفتار کیا جاسکے گا۔عمران شفیق کہتے ہیں کہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان ترامیم کا ہدف عمران خان اور حزب اختلاف کے رہنما بنیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ حکومتی رہنما پرانی ترامیم کے تحت اپنے مقدمات کو ختم کروا چکے ہیں اور اب وہ قانون کو دوبارہ اسی حالت میں لاکر حزب اختلاف کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ سابقہ حکومت میں ان کے خلاف استعمال ہوئے۔
نیب قانون کے ماہر راجا انعام امین منہاس کہتے ہیں کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے کی گئی اپنی ہی ترامیم کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے واپس کر دیا ہے اور اب یہ حکومت سے پوچھا جانا چاہیئے کہ پہلے کی گئی ترامیم درست تھیں یا ابھی لایا جانے والا صدارتی آرڈنینس۔انہوں نے مزید کہا کہ نیب آرڈیننس احتساب ادارے کو بہت لامحدود اختیارات دیتا ہے جن کا ماضی میں بے دریغ غلط استعمال ہوا اور پارلیمنٹ سے گزشتہ سال ہونے والی قانون سازی کے ذریعے اسے کسی حد تک حدود میں لانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صدارتی حکم نامے سے نیب کو دوبارہ سے لامحدود اختیارات حاصل ہو گئے ہیں جسے گزشتہ حکومت بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی اور موجودہ حکومت بھی استعمال کرے گی۔
خیال رہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کیس میں ملوث اور تحقیقات کے عمل میں تعاون نہ کرنے والے ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتے ہیں۔ جبکہ نیب کو تحقیقات کے دوران ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔چیئرمین نیب کو مقدمے میں سے کسی فرد کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیار مل گیا ہے، نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بدلے میں تحائف لینا یا دینا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس 2023 فوری طور پر نافذالعمل ہو گیا ہے۔صدارتی آرڈیننس کے بعد چیئرمین نیب کو مقدمے میں سے کسی فرد کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیار مل گیا ہے، وعدہ معاف گواہ اپنی گواہی مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گا۔ تاہم گواہ نے کوئی بات چھپانے کی کوشش کی تو اس کی معافی منسوخ ہو جائے گی، اس صورت میں وعدہ معاف گواہ کی گواہی اس کے خلاف بھی استعمال ہو سکےگی۔
آرڈیننس کے مطابق کیس جھوٹا ثابت ہونے پر مقدمہ بنانے والے کو 3 سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔ صدارتی آرڈیننس کے تحت اب نیب ملزم کو 14 کے بجائے 30 روز کے لیے نیب کے تفتیشی ریمانڈ میں دیا جائے گا۔ متعلقہ عدالت کی اجازت سے اسے وقتاً فوقتاً 90 دن تک بڑھایا جا سکتا ہے۔