رولزکی سرکولیشن کےذریعےمنظوری پرتحفظات،4ججزنےچیف جسٹس کوخط لکھ دیا

سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان نے "سپریم کورٹ رولز 2025” کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری غیرقانونی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔
خط پرجسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے لکھے گئے خط میں واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ ججز نے رولز پر غور کے لیے بلائے گئے فل کورٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جج صاحبان نے اپنے مؤقف میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کو فل کورٹ کے روبرو پیش یا اس سے منظور نہیں کرایا گیا، جو محض تکنیکی نہیں بلکہ آئینی اور قانونی اہمیت کا بنیادی مسئلہ ہے۔
ان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ بطور ادارہ رولز بنانے کی مجاز ہے، اور اس عمل میں اجتماعی منظوری ناگزیر ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ چیف جسٹس نے ان رولز کو یکطرفہ طور پر سرکولیشن کے ذریعے منظور کیا، جو نہ صرف طریقہ کار کے خلاف ہے بلکہ اس کا مواد بھی قانونی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ ان کے بقول، سرکولیشن صرف معمولی نوعیت کے انتظامی امور کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جبکہ عدالت کے آئینی ڈھانچے سے متعلق فیصلے اجتماعی اور باقاعدہ فل کورٹ اجلاس کے ذریعے ہی کیے جا سکتے ہیں۔
خط میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر رولز 9 اگست 2025 کو منظور ہو کر گزٹ میں شائع ہو چکے تھے، تو پھر 12 اگست کو ان پر تجاویز کیوں طلب کی گئیں؟ اور اب فل کورٹ اجلاس بلانے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے؟
ججز کا کہنا ہے کہ یہ سارا عمل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اجتماعی غور و فکر ناگزیر تھا، لیکن منظوری کے بعد فل کورٹ کو محض رسمی حیثیت دی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر اجلاس سے پہلے ہی رولز کو "منظور شدہ” قرار دیا جا چکا ہے تو فل کورٹ کا اجلاس صرف خانہ پُری ہوگا، جو ادارے کی اجتماعی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
جج صاحبان نے مطالبہ کیا ہے کہ رولز کو دوبارہ فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے اور ان پر کھلی بحث کے بعد ہی منظوری دی جائے، بصورت دیگر وہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
