اسامہ ستی کے والدین کو عمران خان سے کیا شکوہ ہے؟

اسلام آباد میں پچھلے برس اینٹی ٹیررسٹ فورس کے ہاتھوں قتل ہونے والے 22 سالہ طالبعلم اسامہ ندیم ستی کے والدین شکوہ کناں ہیں کہ ایک سال بعد بھی انہیں نہ تو عدالت سے انصاف مل سکا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان نے ان سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا کیا۔
اسامہ کے والد ندیم ستی کہتے ہیں کہ ہمارا لخت جگر تو چلا گیا، دعا ہے کسی اور کوایسا صدمہ نہ ملے۔ انہوں نے بتایا قتل کے واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ پولیس اصلاحات بل لایا جائے گا اور اُس بل کا نام اسامہ ستی بل رکھا جائے گا لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہ ہوا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملزمان نے دہشت گردی کی دفعات ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کر رکھا ہے اب ہمیں ڈر ہے اگر سپریم کورٹ نے ملزمان کے حق میں فیصلہ کیا تو یہ مقدمہ دوبارہ زیرو پہ چلا جائے گا کیونکہ ابھی یہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تکمیلی مراحل کی جانب گامزن ہے لیکن اگر سپریم کورٹ نے ملزمان سے دہشت گردی کی دفعات ختم کیں تو مقدمہ سول عدالت میں چلا جائے گا اور ازسرنو شروع ہو گا جس سے انصاف کھٹائی میں پڑ جائے گا۔
مقدمے میں پیش رفت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ملزمان کی شہادتیں ریکارڈ ہو رہی ہیں، سرکاری اور پرائیورٹ کل 39 گواہ ہیں جن میں سے سات شہادتیں قلمبند ہو چکی ہیں۔
انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس یکم اور دو جنوری کی درمیانی شب 22 سالہ اسامہ ندیم ستی اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر جی 10 کے اشارے سے کچھ میٹر آگے پولیس کی انسداد دہشت گردی فورس کی گولیوں کا شکار ہو کر جان گنوا بیٹھے تھے۔ اسامہ ستی اپنے دوست کو ڈراپ کرنے نسٹ یونیورسٹی گئے تھے جو کہ ایچ 13 میں واقع ہے اور ڈراپ کر کے جی 13 میں واقع اپنے گھر رواں دواں تھے کہ گشت پر مامور پولیس اہلکاروں نے ایچ 13 سے نکلتے ہی اُن کی گاڑی کا پیچھا کیا۔
خوف کے باعث اسامہ سری نگر پر جی 13 مڑنے کے بجائے جی ٹین اشارے تک گاڑی دوڑاتے رہے جہاں پہنچ کر پولیس اہلکاروں نے گاڑی پر فائر کھول دیے۔ اسامہ پر بائیس گولیاں چلائی گئیں جن میں نو گولیاں اسامہ کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ اسامہ کے والد کے مطابق جن اہلکاروں نے اسامہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا ان سے ایک روز قبل اسامہ کی معمولی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور پولیس اہلکاروں نے اسامہ کو دھمکایا تھا۔ خیال رہے قتل کے بعد ابتدائی طور پہ پولیس نے اسے ڈکیٹی کی واردات ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سوشل میڈیا پر شور اور دباؤ کے باعث معاملہ چھپ نہ سکا اور اسامہ ستی کے والد نے انسداد دہشت گردی کے پانچ اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرایا۔
الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کے 8والیم کیوں چھپا رہا ہے؟
ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان دفعہ 302 بھی شامل کی گئی۔ کابینہ کی میٹنگ میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیااور وزیر داخلہ کو ہدایت دی کہ تحقیقات کر کے واقعے کی رپورٹ درج کرائیں جس کے بعد پولیس نے معاملے کو سنجیدہ لیا اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو برطرف کر کے حراست میں لے کر قانونی کارروائی شروع کر دی گئی۔ واقعے کے فوری بعد تین جنوری کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 19 کے تحت چیف کمشنر اسلام آباد نے جے آئی ٹی تشکیل دی۔ کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ تیرہ جنوری کو سامنے آئی رپورٹ کے مطابق اسامہ ستّی کا کسی ڈکیتی یا جرم سے کوئی واسطہ ثابت نہیں ہوا، اسامہ کو گولیاں جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے ماری گئیں،گولیاں ایک اہلکار نےنہیں چار سے زائد اطراف سے بائیس گولیاں ماری گئیں۔
جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے مطابق سینیئر افسروں کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا اور قتل کو چار گھنٹوں تک اسامہ کے خاندان سے چھپایا گیا میسر شواہد کو دیکھتے ہوئے گزشتہ برس پندرہ اکتوبر کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد 27 اکتوبر 2021سے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ ملوث ملزم شکیل احمد نے ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ رجوع کیا تو بیس نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ ملزم پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے، ٹرائل کورٹ 3 ماہ کے اندر کیس کا ٹرائل مکمل کرے۔