9 مئی کے اشتہاریوں کی گرفتاری کیلئے کریک ڈاؤن کا فیصلہ
عسکری املاک پر دھاوا بولنے اور شہداء کی یادگاروں کو آگ لگانے کے مبینہ سہولتکاروں، مفرور ملزمان اور ماسٹر مائنڈز کا انجام قریب آچکا ہے۔حکومت اور عسکری قیادت نے گرفتاریوں کے دوسرے مرحلے میں سانحہ 9 مئی میں ملوث بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے دو ہفتے کے دوران اس حوالے سے واضح پیش رفت دکھائی دے گی اور بڑی گرفتاریاں متوقع ہیں۔
دوسری جانب لاہور پولیس نے عام انتخابات 2024 کے دوران نو مئی کے اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔لاہور پولیس کے مطابق انتخابی مہم اور کارنر میٹنگز میں 9مئی کے اشتہاری ملزموں کی موجودگی پر گرفتاری کے لیے کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت سے وابستہ اشتہاری ملزمان انتخابی مہم میں سرگرم ہیں اور سنگین مقدمات کے اشتہاریوں کی گرفتاری چار دیواری کے اندر سے بھی کی جاسکتی ہے۔ 9 اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے کام جاری ہے اور عسکری ٹاور حملہ کیس سمیت دیگر مقدمات میں ملوث درجنوں رہنما اور کارکن گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے کارنر میٹنگز اور سیاسی جلسوں کی نگرانی کی جارہی ہے اور اس میں ملزموں کی موجودگی پر ان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
خیال رہے کہ ملکی سیاست میں مکافات عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ 2018 میں نون لیگ ریاستی عتاب کا شکار تھی جبکہ اب ماضی کی لاڈلی تحریک انصاف اپنی شرپسندانہ سیاسی حکمت علی کی وجہ سے انجام کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ 2018 میں نون لیگ کی مرکزی قیادت پابند سلاسل تھی جبکہ اب پی ٹی آئی کے اکثر قائدین جیلوں میں جبکہ باقی ماندہ قیادت روپوش ہے۔ تاہم الیکشن کا وقت قریب آتے ہی سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں میں تیزی آنے والی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سال 2018 میں بھی عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل میں قید کیا گیا تھا جبکہ مختلف کیسز میں مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ اب دوبارہ عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے سربراہ و سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی مختلف مقدمات میں گرفتار ہیں۔
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا تو ایک پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو نے والا ہے۔ تو کیا ملک میں 2018 والے حالات پیدا ہو گئے ہیں؟اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا کہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کا جو سلسلہ تھا اب بھی ویسا ہی ہے لیکن اس دفعہ ہونے والی گرفتاریاں کچھ خاص اس لیے ہیں کیونکہ یہ گرفتاریاں 9 مئی کے بعد ہوئیں۔ 2018 میں تو نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک لڑائی تھی لیکن اس لڑائی میں زبانی کلامی ہی کسی حد تک کچھ باتیں ہوا کرتی تھیں، لیکن 9 مئی کا واقعہ زبانی نہیں تھا اسی لیے عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔انصار عباسی نے مزید کہا کہ جس دن 9 مئی واقعہ ہوا تھا اسی دن سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب پی ٹی آئی کے لیے سیاست بہت مشکل ہو جائے گی، 2018 میں بہت کچھ اس طرح کا ہوا تھا لیکن 9 مئی بہت سخت واقعہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ابھی بھی پی ٹی آئی کے لوگ 9 مئی کے حوالے سے بہت ہلکی سی بات کرتے ہیں، حالانکہ وہ اتنی ہلکی بات ہے نہیں جتنی وہ ہلکی لے رہے ہیں، پاکستان کی فوج کے اوپر اس طرح سے حملہ کبھی کسی نے نہیں کیا کہ تنصیبات کو ہی آگ لگا دی ہو۔انصار عباسی نے کہاکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی سیاسی پارٹی فوجی تنصیبات پر دھاوا بول دے گی۔
دوسری جانب تجزیہ کار اعزاز سیّد نے کہا کہ الیکشن سے قبل گرفتاریوں کا سلسلہ نیا نہیں ہے، ہر الیکشن سے قبل اسی طرح گرفتاریاں ہوتی ہیں، لیکن اس مرتبہ کی گرفتاریوں کی ایک خاص بات ہے کہ اس مرتبہ 9 مئی کا واقعہ نیا ہے اور یہ واقعہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔اعزاز سید نے کہا کہ نواز شریف کے کیس کا فیصلہ سال 2018 میں عام انتخابات سے چند روز قبل آیا تھا، جبکہ لیگی رہنما حنیف عباسی کے کیس کا فیصلہ تو الیکشن شیڈول کے بعد آ یا تھا، ابھی تو اور بھی بہت کچھ ہو گا۔انہوں نے کہاکہ 9 مئی کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کو آئندہ عام انتخابات میں بہت نقصان ہو گا، شاید ایسا نقصان ہو جو ماضی میں کسی پارٹی کو نہ ہوا ہو