پیپلز پارٹی اور نون لیگ کھل کر آمنے سامنے کیوں  آ گئے؟

ماضی قریب کی دو اتحادی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کھل کر آمنے سامنے آ گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے پی ٹی آئی ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے انتخابی مہم کے دوران نون لیگی قیادت کو مسلسل نشانے پر رکھنے کے بعد اب لیگی قیادت نے بھی جوابی الزامات عائد کرنا شروع کر دئیے ہیں۔

دوسری جانب مبصرین کے مطابق جملہ بازی ،طعنہ کسنا اور ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کا یہ ماحول پاکستان جیسے ملک میں ہر الیکشن سے قبل دیکھنے کو ملتا ہے۔کیونکہ یہ گھاک سیاستدان جان چکے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے منشور تیار کرنا اور اسے عوام کے سامنے رکھ کر عوام کو قائل کرنا ضروری نہیں ہے۔بلکہ کامیابی کے لیے ایک خاص اور موثر بیانیہ ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ کیونکہ پاکستان جیسے نیم خواندہ ملک میں نہں کوئی منشور پوچھتا ہے نہ یہاں کسی سے اس کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی سوال ہوتا ہے۔ یہاں نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر صف بندی ہوتی ہے اور یہ اشرافیہ محروم طبقات کی محرومیوں کو مزید اجاگر کر کے اس کا استحصال کرتی ہے۔ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ،اس دوران ہلکے انداز میں کچھ عوامی مسائل کے بارے میں بات شائد یہی وہ سوچ اور منصوبہ ہے جو اس بار بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی میدان میں لیکر نکل چکی ہے۔ اور اسی کو وہ جیت کی بنیاد بھی سمجھ رہی ہیں۔

ملک کی دو بڑی جماعتوں ،پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی ،الیکشن کا ماحول جمتے ہی ماضی قریب میں بغلگیر رہنے والے یہ جماعتیں عین الیکشن سے قبل باہم دست و گریبان ہو چکی ہیں ۔ تیسرے فریق کے ناک آوٹ ہوتے ہی باقی بچی دونوں جماعتوں نے فرینڈلی میچ کھیلنے اور ایک دوسرے کو واک اوور دینے کی بجائے ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہونا مناسب سمجھا۔ ۔ شاید فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سن سن کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے قائدین بھی تنگ آ چکے ہوں یا پھر حد سے تجاوز کرتے ہوئے عوامی مسائل نے بھی دونوں کو تنقید کرنے اور ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ہر گرم سرد جملے میں تحریک انصاف کا بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ تذکرہ شامل ہوتا ہے ۔مسلم لیگ ن کے ہاں آج سے پہلے تحریک انصاف کا تذکرہ کچھ زیادہ تھا لیکن پیپلز پارٹی تو الیکشن سر پر دیکھتے ہی تحریک انصاف کے ووٹرز پر قبضہ جمانے کے لیے ان سے اظہار ہمدردی کر رہی ہے اور ن لیگ کو انتقامی سیاست کا طعنہ دے رہی ہے ۔بلاول بھٹو زرداری تو کافی روز سے ن لیگ پر تنقید کر رہے تھے لیکن اب مسلم لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ نے بھی پیپلز پارٹی کو تگڑا جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے گجرات میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ن لیگ کو گھر سے باہر نہ نکلنے کا اور کسی بھی قسم کا منشور نہ دینے کا طعنہ دیا تو مریم نواز نے آج اپنے حلقے کے پہلے انتخابی اجتماع سے خطاب میں اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف وہی منشور دیتے ہیں جس پر وہ عمل کر سکیں ۔ورنہ کاغذ کا ٹکڑا تو کوئی بھی لہرا سکتا ہے۔اسی طرح گزشتہ دنوں بلاول نے تحریک انصاف سے انتقام لینے کا ملبہ ن لیگ پر گرایا اور انہیں دلاسہ دیا کہ وہ اقتدار میں آکر ان کو انتقامی سیاست سے نجات دلائیں گے ۔ان کے اس بیان کا شہباز شریف نے بھکر جلسے میں جواب دیا اور پیپلز پارٹی سے ذاتی جیلیں ختم کرنے کی اپیل کی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ نواز جان گئی ہے کہ پیپلزپارٹی نے ن لیگ مخالف بیانیے پر ملک بھر میں الیکشن لڑنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اسی لئے پیپلز پارٹی قیادت تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین پر تنقید نہیں کررہی بلکہ پیپلز پارٹی کی ساری تنقید کا مرکزن لیگ اور شریف خاندان ہے۔ پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ وہ ملک بھر میں تحریک انصاف کے ووٹر کی ہمدردی حاصل کر کے اس کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔ اس لیے پیپلز پارٹی قیادت تحریک انصاف کے حامیوں کو ناراض نہیں کر رہی بلکہ ن لیگ مخالف ووٹ حاصل کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔

Back to top button